بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اقامت کے بعد امام کے آنے کی صورت میں امامت کا حق دار کون ہے؟


سوال

امام صاحب موجود نہیں تھے، ایک عام مقتدی کوامامت کے لیے کھڑاکردیاگیا،تکبیرمکبر نے کہہ دی ،اتنے میں امام صاحب بھی پہنچ گئے۔ سوال یہ ہے کہ ان صاحب کونماز پڑھانی چاہیے یا ان کو ہٹا کر امام صاحب سے نماز پڑھوائی جائے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر وقتِ مقرر پر امام موجود نہ ہو توکچھ دیر اس کا انتظار کیا جائے، اگر وہ تب بھی نہ آئے تو اس کی جانب سے نامزد کردہ شخص (مؤذن یا نائب امام) نماز پڑھائے، کسی بھی عام مقتدی کے لیے اس کی اجازت کے بغیر امامت کے لیے کھڑا ہونا درست نہیں، تاہم اگر امام کے نہ آنے اور ان کے نائب ہونے  کی صورت میں کوئی عام مقتدی نماز کے لیے کھڑا ہوا اور امام تکبیرِ تحریمہ سے پہلے مسجد میں پہنچ گئے تو امامت کے لیے آگے ہونے والے شخص کو  چاہیے کہ وہ خود پیچھے ہٹ جائے اور امام صاحب کو نماز کے لیے آگے کردے، کیوں کہ و ہی امامت کا سب سے زیادہ مستحق ہےاور ایسا کرنے کی صورت میں اقامت کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے،البتہ اگر مذکورہ مقتدی (جس کو امامت کے لیے آگے کیا گیا ہے) پیچھے نہیں ہٹتا اور نماز پڑھا دیتا ہے تو نماز ادا ہوجائے گی ،بشرطیکہ وہ نماز کی تمام شرائط کو پورا کر کے نماز پڑھا دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما، وصرح الحدادي بتقديم الوالي على الراتب (والمستعير والمستأجر أحق من المالك) لما مر.

و في الرد : (قوله مطلقا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه."

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۵۵۹،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"صلى السنة بعد الإقامة أو حضر الإمام بعدها لا يعيدها بزازية. وينبغي إن طال الفصل أو وجد ما يعد قاطعا كأكل أن تعاد.

و في الرد : (قوله: وينبغي إلخ) البحث لصاحب النهر.أقول: قال في آخر شرح المنية: أقام المؤذن ولم يصل الإمام ركعتي الفجر يصليهما ولا تعاد الإقامة؛ لأن تكرارها غير مشروع إذا لم يقطعها قاطع من كلام كثير أو عمل كثير مما يقطع المجلس في سجدة التلاوة اهـ."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ج نمبر ۱،  ص نمبر ۴۰۰،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں