1- مرحومین کو ایصالِ ثواب کا کیا طریقۂ کار ہے؟اشراق، چاشت، اوابین، صلاۃ التسبیح اور پانچوں نمازوں کے نوافل پڑھ کر مرحومین کو ایصالِ ثوا ب کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟(خصوصًا والدین کے لیے)۔
2- والدین کے ایصالِ ثواب کے لیے اگر نفل نماز میں سجدہ کی تسبیحات کے بعد دس دس بار اور آخر میں سلام سے پہلے تین بار {رب ارحمهما كما ربيٰني صغيرًا } دعا پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
3- عورتیں اپنے بال اور ناخن جمع کرتی ہیں وہ کہاں پھینکے جائیں؟
1،2۔ واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ ہی قرآنِ کریم کا ختم کرنا ضروری ہے، بلکہ بلاتعیین جو بھی نفلی عبادت ( خواہ بدنی ہو یا مالی) بہ سہولت ہوسکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے ، نفلی اعمال کا ثواب مُردہ اور زندہ دونوں کو بخشا جاسکتا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک یہ ثواب ان کو بلاشک و شبہ پہنچتا ہے، البتہ ایصالِ ثواب کا مختصر طریقہ یہ ہے کہ تلاوت (یا کوئی بھی نفلی عبادت) کرنے کے بعد صرف یہ نیت کرلیں کہ ’’یااللہ اس عمل کا ثواب فلاں فلاں شخص تک پہنچا دیں‘‘ تو اس عمل کا ثواب عمل کرنے والے کو بھی اور جسے پہنچایا جائے اسے بھی مل جاتاہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اشراق، چاشت، صلاۃ التسبیح اور فرض نمازوں کے بعد کے نوافل پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے، خواہ والدین کے لیے ہو یا کسی اور کے لیے، باقی نفل نماز میں سجدہ کی تسبیحات کے بعد دس دس مرتبہ اور آخر میں سلام سے پہلے تین بار مذکورہ دعا کرنا صحیح سند سے ثابت نہیں، اگر اس دعا کو بغیر نماز کے پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہے، البتہ والدین کو ثواب پہنچانے کے لیے بہتر یہ ہے کہ ان کی طرف سے ایسا صدقہ یا نیک عمل کیا جائے جس کا اجر جاری رہے، مثلًا ان کے ایصالِ ثواب کے لیے کنواں کھدوا دیں، مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں حصہ لے لیں، مسجد یا مدرسے میں قرآن شریف یا دینی کتابیں وقف کردیں، یا پھل دار سایہ دار درخت لگادیں، وغیرہ وغیرہ۔
ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں جن میں والدین کی طرف سے ایصالِ ثواب کے لیے مختلف چیزوں کا تذکرہ آیا ہے:
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"و عن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي."
(كتاب النكاح، باب الصداق، الفصل الأول،1/ 597، ط: دار الفكر)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة، أنّ رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»."
(كتاب السنن، باب في الصدقة على الميت، الفصل الاول، 3/ 1254، ط: دار احياء التراث العربي)
سنن أبو داؤد میں ہے:
"عن أسيد بن علي بن عبيد، مولى بني ساعدة عن أبيه، عن أبي أسيد مالك بن ربيعة الساعدي، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذ جاء ه رجل من بني سلمة، فقال: يا رسول الله، هل بقي من بر أبوي شيء أبرهما به بعد موتهما؟ قال: «نعم الصلاة عليهما، والاستغفار لهما، وإنفاذ عهدهما من بعدهما، وصلة الرحم التي لا توصل إلا بهما، وإكرام صديقهما»."
(ابواب النوم، باب في بر الوالدين، 4/ 336،ط: المكتبة العصرية )
3۔ ناخن کے جزءِ انسانی ہونے کی وجہ سے شریعتِ مقدسہ نے اسے قابل احترام قرار دیاہے، اس لیے ناخن کاٹنے کے بعد اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو دفنادیا جائے یا دریا برد کردیاجائے، یا ایسی جگہ مٹی میں ڈال دینا چاہیے کہ جہاں بے توقیری نہ ہو،اگر ناخن کاٹ کر کوڑے کرکٹ میں پھینکنا یا گٹر وغیرہ میں بہانا یا ایسی جگہ ڈالنا کہ جہاں گندگی اور ناپاکی ہو، فقہاءِ کرام نے اس کو مکروہ اور بیماری کا سبب قرار دیا ہے، اس لیے اس طرح کے مقامات پر پھینکنے سے احتراز کرنا چاہیے، اور یہ حکم عام ہے چاہے عورت کے ناخن ہوں یا مرد کے ناخن ہوں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله ويستحب قلم أظافيره) وقلمها بالأسنان مكروه يورث البرص، فإذا قلم أظفاره أو جز شعره ينبغي أن يدفنه، فإن رمى به فلا بأس، وإن ألقاه في الكنيف أو في المغتسل كره؛ لأنه يورث داء خانية. ويدفن أربعة: الظفر، والشعر، وخرقة الحيض، والدم عتابية ط."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج: 6، ص: 405، ط: سعيد)
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"وفي الخانية: ينبغي أن يدفن قلامة ظفره، ومحلوق شعره، وإن رماه فلا بأس، وكره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل؛ لأن ذلك يورث داء، وروي أن النبي - صلى الله عليه وسلم- أمر بدفن الشعر والظفر وقال: لا تتغلب به سحرة بني آدم اهـ ولأنهما من أجزاء الآدمي فتحترم، وروى الترمذي عن عائشة رضي الله عنها: كان - صلى الله عليه وسلم- أمر بدفن سبعة أشياء من الإنسان: الشعر والظفر. الخ."
(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ص: 527، ط: دار الكتب العلمية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100935
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن