بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

اسمگلنگ اور ڈیجیٹل کرنسی کے کاروبار کا حکم


سوال

اسمگلنگ کیوں جائز ہے ؟جب کہ اس میں ایک ملک اور ریاست کا نقصان ہے کہ اس کی کرنسی ڈیویلیو ہوتی ہے؟

اور ڈیجیٹل کرنسی کیوں ناجائز ہے؟ جب کہ اس میں عام آدمی کا فائدہ ہے!

جواب

واضح رہے کہ تجارت کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں شرعی اصولوں او رشرائط کا خیال رکھا جائے ،لہذا کسی بھی بیرونِ ملک سے مال خرید کر اپنے ملک لانایا  اپنے ملک سے کوئی چیز وہاں جاکر بیچنا ،اس میں اگر  خرید و فروخت کی تمام شرائط کا لحاظ رکھاجائے گا  تو  یہ فی نفسہ مباح ہوگا،البتہ اگر عوام الناس کے مفاد  کی خاطر حکومتی سطح پر جائز اشیاء  کی اسمگلنگ ممنوع ہو تو  اس سے اجتناب  ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا دیانتًا ضروری ہوتاہے؛  اس طرح کے جائز امور  سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، اور معاہدے کی خلاف ورزی سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا شرعاً ضروری ہے۔

لیکن بایں ہمہ اگر کوئی  شخص جائز چیز کی خرید و فروخت تمام شرعی شرائط کی رعایت رکھ کر کرلیتا ہے تو ظاہر ہے شرعًا اس کی خرید و فروخت جائز ہی کہلائے گی، کرنسی کی ویلیو بڑھنے یا گھٹنے پر خرید و فروخت کے جواز یا عدمِ جواز کا مدار نہیں ہوگا۔ باقی معاشی نظام مستقل موضوع ہے، اگر اسلامی تعلیمات کے دائرے میں رہ کر معیشت کا پہیہ چلایا جائے تو ان تمام امور کا تدارک بھی ہوسکتاہے، اور ان میں توازن بھی برقرار رکھا جاسکتاہے۔

 جہاں تک بات ہے  ڈیجیٹل کرنسی کی تو  اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط  موجود نہیں  ہیں، اس کرنسی کا حقیقت میں کوئی  مادی وجود نہیں ہے، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا ،صرف اکاؤنٹ میں کچھ حساب و کتاب کے اعداد آجاتے ہیں، یہ فاریکس ٹریڈنگ کی  مروجہ آن لائن صورتوں کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، لہذا اس میں تجارت کے صحیح ہونے کی شرائط موجود  نہ ہونے کی وجہ سے اس کا  کاروبار شرعًاجائز نہیں ہے ۔

ہر فائدہ دینے والی جائز نہیں ہوتی، سود اور جوے میں بھی  ظاہری فائدہ نظر آتاہے، اور شراب میں بھی ایک گونہ فائدہ ہوتاہے، جیساکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ "اور ان دونوں (شراب اور جوے) کا گناہ، ان دونوں کے نفع سے بڑا ہے"، یعنی ان دونوں میں فائدہ گو موجود ہے، لیکن اس میں گناہ اور نقصان زیادہ ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے گا، ڈیجیٹل کرنسی میں اگرچہ نفع پایا جائے، لیکن چوں کہ اس میں جوے کا عنصر بھی پایا جاتاہے، اور شرعی طور پر "مال" اور اس کے تقاضے بھی پورے نہیں ہیں، لہٰذا اس کی خرید و فروخت سے اجتناب کا کہا جاتاہے۔

وفي التفسير المظهري:

"{وَلا تَأْكُلُوا أَمْوالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْباطِلِ}كالدعوى الزور والشهادة بالزور او الحلف بعد إنكار الحق او الغصب والنهب والسرقة والخيانة او القمار واجرة المغني ومهر البغي وحلوان الكاهن وعسب التيس والعقود الفاسدة او الرشوة وغير ذلك من الوجوه الّتى لا يبيحه الشرع." (1/ 209ط:رشيدية)

وفي عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية :

اعلم أنَّ المالَ عينٌ يجري فيه التَّنافس والابتذال، فيخرجُ منه التُّرابُ ونحوه، والدَّمُ والميتةُ التي ماتت حتفَ أَنْفِه.(6/ 461)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

قال في المعراج لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية واجبة . (رد المحتار2/ 172ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200274

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں