بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اسماعیلی کون ہوتے ہیں/ اسماعیلیوں سے نکاح


سوال

 اسماعیلی کون لوگ ہوتے ہیں ؟ کیا ایک سنی مسلمان لڑکی کا اسماعیلی لڑکے سے نکاح کرنا جائز ہے ؟

جواب

اسماعیلی فرقہ عقیدۂ امامت کو ماننے والا ایک الگ  فرقہ ہے جس کے عقائد دینِ اسلام سے بالکل مختلف اور متصادم ہیں، اس فرقہ کے پیروکار  اسلام کے خلاف عقائد رکھنے کی وجہ سے اسلام سے خارج ہیں۔

ڈاکٹر زاہد علی اپنی کتاب "ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام“ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:

"حقیقت یہ ہے کہ اسماعیلی مذہب کی ابتدائی بناء اس اصول پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری شریعت وضع فرمائی اور مولانا علی علیہ السلام نے اس کے باطن یعنی تاویل کی تعلیم شروع کی۔ آپ کے بعد چھ امام یعنی مولانا حسن، مولانا حسین، مولانا علی زین العابدین، مولانا باقر، مولانا جعفر صادق اور مولانا اسماعیل ہوئے جنہوں نے باطنی تعلیم کی تکمیل کی اس لیے یہ ”ائمہ متمین“ کہلاتے ہیں، ساتویں امام مولانا محمد بن اسماعیل جو سابع المتمین، خاتم الائمہ، قائم الاتماء، سابع الرسل اور سابع النطقاء کہے جاتے ہیں آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے شریعتِ محمدی کے ظاہر کو معطل کردیا۔ آپ نے محمد المصطفی کے دور کو پورا کیا اور آپ سے ساتواں دور شروع ہوا جس سے عالم طبیعت کی انتہاء اور دورِ روحانی کی ابتدا ہوئی۔ آپ کی نسل میں جو ائمہ ہوئے اور قیامت تک ہوں گے وہ سب خلفاء قائم ہیں۔ جو قائم کی دعوت کے فرائض ادا کریں گے۔ ان میں سے اگر کسی خلیفہ کو موقع ملے تو وہ قائم کی حیثیت سے ظہور فرمائیں گے اور تاویل یعنی علمِ باطن ظاہر کر کے تمام دنیا کو اسماعیلی مذہب کا پیرو بنائیں گے"۔

(ہمارے اسماعیلی مذہب کی بنیاد، مقدمہ: ص:م، ط: مکتبہ بینات)

ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں:

"اکثر مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسماعیلی مذہب بالکل ایک نئی چیز ہے۔ اسے اسلام سے بہت کم تعلق ہے، اس کے مآخذ یہودی، نصرانی اور یونانی ہیں۔ اس کا فلسفہ خاص کر جدید افلاطونی فلسفہ سے ماخوذ ہے۔ اسلام کا اس پر صرف رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ اسماعیلی رجعت، حلول، تناسخ خصوصاً تعطیل و اباحت کے علمبردار ہیں"۔

(ہم اسماعیلیوں پر اہلِ ظاہر کے الزامات، مقدمہ: ص:غ/2، ط: مکتبہ بینات)

لہذا ایک سنی مسلمان لڑکی کا کسی اسماعیلی لڑکے سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔

اسماعیلی مذہب سے متعلق معلومات کے لیے ڈاکٹر زاہد علی کی تصنیف ”ہمارے اسماعیلی مذہب کی حقیقت اور اس کا نظام“ کا مطالعہ مفید ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا} [البقرة: 221] ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل: {أولئك يدعون إلى النار} [البقرة: 221] لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سببا داعيا إلى الحرام فكان حراما".

(كتاب النكاح،فصل:ومنها إسلام الرجل،  2/ 271، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606100627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں