بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاط حمل کے بعد جو خون آئے اس میں روزے اور نماز کا حکم


سوال

میں نے تقریبا 10 ہفتے (ڈھائی  ماہ )کے حمل کا اسقاط کروایا تھا، کیو ں کہ بچے کی نشو ونما نہیں ہورہی تھی،دس  دن خون آیا پھر بند ہوا، اب  ڈاکٹر کو  دکھایا   تو ابھی کچھ حساب تھاکہ ڈاکٹر نے مزید دوائی دی ،تاکہ خون کے لوتھڑے نکل جائیں، اب روزے اورنماز کا  کیا حکم ہے؟جاری  رکھیں یا بعد میں قضاء کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں 10 ہفتے  کے حمل ضائع کرانے کی صورت میں  دس دن تک آنے والا خون حیض ہے ، اس کے بعد اگر پندرہ دن سے کم میں خون نظر آئے گا تو وہ استحاضہ ہوگا ،اس میں نماز پڑھے اور روزے بھی رکھے، باقی بچے کی نشو و نما نہ ہونے کی وجہ سے اسقاط کرنا جائز نہیں تھا۔

فتاوی شامی میں ہے

"(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا) لحديث «توضئي وصلي وإن قطر الدم على الحصير."

(فتاوی شامی، ج:1، ص:298،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء  فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة".

(فتاوی شامی، ج:1، ص:302، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں