۱) جو دوکاندار یا کمپنی اسرائیل کا بائیکاٹ نہ کرے کیا اس کا بائیکاٹ کیا جائے؟
۲) بعض حضرات جو بائیکاٹ نہیں کررہے ان کے ہاں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں یہ جائز ہے؟ یا ان کی دوکانوں پے جا کر وعظ کرنا یا تلخ کلامی صحیح ہے وضاحت کر دیں۔
۱)جو دوکان دار اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ نہیں کر رہے ان دوکانداروں کو تنبیہ کرنے کی خاطر اور ان کی حمیت دین کو جگانے کی خاطر ان دوکانداروں کا بائیکاٹ کرنا درست ہے ۔ ایسا کرنے سے امید ہے کہ وہ بھی اپنی اس عملی کوتاہی کو چھوڑ دیں گے اور اسرائیل کو زیادہ سے زیادہ مالی نقصان پہچانا ممکن ہوگا۔
۲) بائیکاٹ نہ کرنے والے دوکان داروں کی دوکانوں پر توڑ پھوڑ کرنا قطعا جائز نہیں ہے بلکہ توڑ پھوڑ کرنے والے اس پر گناہ گار ہوں گے اور جتنی توڑ پھوڑ کریں گے اس کا ضمان بھی ان پر واجب ہوگا۔نیز ان کو دوکانوں پر جا کر تلخ کلامی بھی نہ کی جائے بلکہ احسن طریقہ سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے ،فلسطین کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو بتا کر ان کی غیرت ایمانی کو جگانے کی کوشش کی جائے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترى المؤمنين في تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم كمثل الجسد الواحد إذا اشتكي عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمى. متفق عليه
(وعن النعمان بن بشير) : مر ذكرهما رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى المؤمنين) أي: الكاملين (في تراحمهم) أي: في رحم بعضهم بعضا بأخوة الإيمان لا بسبب رحم ونحوه (وتوادهم) بتشديد الدال المكسورة أي: تواصلهم الجالب للمحبة كالتزاور والتهادي (وتعاطفهم) أي: بإعانة بعضهم بعضا (كمثل الجسد) أي: جنسه (الواحد) : المشتمل على أنواع الأعضاء (إذا اشتكى) أي: الجسد (عضوا) لعدم اعتدال حال مزاجه، ونصبه على التمييز، والمعنى: إذا تألم الجسد من جهة ذلك العضو، وفي نسخة إذا اشتكي عضو بالرفع أي: إذا تألم عضو من أعضاء جسده (تداعى له) أي: ذلك العضو (سائر الجسد) أي: باقي أعضائه (بالسهر) بفتحتين أي: عدم الرقاد (والحمى) أي: بالحرارة والتكسر والضعف، ليتوافق الكل في العسر كما كانوا في حال الصحة متوافقين في اليسر، ثم أصل التداعي أن يدعو بعضهم بعضا ليتفقوا على فعل شيء، فالمعنى: أنه كما أن عند تألم بعض أعضاء الجسد يسري ذلك إلى كله، كذلك المؤمنون كنفس واحدة إذا أصاب واحدا منهم مصيبة ينبغي أن يغتم جميعهم ويهتموا بإزالتها عنه، وفي النهاية: كان بعضه دعا بعضا، ومنه قولهم: تداعت الحيطان أي: تساقطت أو كادت، ووجه الشبه هو التوافق في المشقة والراحة والنفع والضر. (متفق عليه)."
(کتاب الآداب، باب الشفقۃ، ج نمبر ۷، ص نمبر ۳۱۰۲، دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن