بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حجرِ اسود اور ملتزم پر رش ہو تو کیا کیا جائے؟


سوال

مسجد ِ حرام میں ملتزم اور حجرِ اسود پر آج کل کا فی بھیڑ ہو تی ہے ،نیز مردوزن کا بھی شدید اختلاط ہو تاہے،ایسے میں ملتزم اور حجر ِ اسود کی بھیڑ میں گھسنا اور مردوزن کے اختلاط میں جانا کہ جس میں لامحالہ اجنبی کے جسم سے جسم بھی ٹکراتا ہے،کیسا ہے؟اگر صحیح نہیں تو پھر حجرِ اسود اور ملتزم کی فضیلت کیسے حاصل ہو؟

جواب

واضح رہے کہ آج کل حجر اسود اور ملتزم پر  مستقل خوشبو  لگی  رہتی ہے؛ لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں حالتِ  احرام میں حجر اسود اور ملتزم کو چومنا اور ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔

البتہ بغیر احرام کے صرف فضیلت پانے کے  لیے اور دعا کرنے کے  لیے وہاں جانا جائز ہے بشرطیکہ رش میں کسی کی ایذا کا باعث نہ بنے اور  نہ کسی اجنبی مرد و زن کا ایسا اختلاط ہو کہ آپس میں ٹکراؤ ہو، ورنہ بجائے فضیلت حاصل کرنے کے گناہ لازم ہو جائے گا۔ دعا کی قبولیت اور فضیلت کے حصول کے  لیے حرمین میں بہت سے مواقع موجود ہیں،  وہاں سے استفادہ کرنا چاہیے۔

لہذا جب رش کم ہو اور گناہ سے بچتے ہوئے حجر اسود اور ملتزم جانا ممکن ہو تو ضرور جانا چاہیے،  ورنہ اجتناب کیا جائے۔

الاستذکار میں ہے:

"ولا يختلف العلماء أن ‌تقبيل ‌الحجر الأسود في الطواف من سنن الحج لمن قدر عليه ومن لم يقدر عليه وضع يده على فيه ثم وضعها عليه مستلما ورفعها إلى فيه فإن لم يقدر أيضا على ذلك كبر إذا قابله وحاذاه فإن لم يفعل فلا أعلم أحدا أوجب عليه دما ولا فدية."

(كتاب الحج، باب تقبيل الركن الأسود في الاستلام، ج: 4، ص: 201، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يستلمون الحجر ثم يقبلونه فيلتزمه ويقبله إن أمكنه ذلك من غير أن يؤذي أحدا لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أنه قال لعمر يا أبا حفص ‌إنك ‌رجل ‌قوي، وإنك تؤذي الضعيف فإذا وجدت مسلكا فاستلم، وإلا فدع وكبر وهلل»."

(كتاب الحج، فصل في بيان سنن الحج، ج: 2، ص: 146، ط: دار الكتب العلمية )

خزانۃ المفتیین میں ہے:

"وإن لم يستطع استلام الحجر من غير أن يؤذي أحدا لا يستلمه، ولكن يستقبل الحجر، ويشير بكفيه نحو الحجر، ويكبر، ويهلل، ويحمد الله، ويصلي على النبي عليه السلام، ثم يقبل كفيه."

(كتاب الحج، فصل في كيفية أداء الحج، ص: 1108، ط: شاملة)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي ‌رسالة ‌الحسن ‌البصري التي أرسلها إلى أهل مكة أن الدعاء هناك يستجاب في خمسة عشر موضعا في الطواف، وعند الملتزم، وتحت الميزاب، وفي البيت، وعند زمزم، وخلف المقام، وعلى الصفا، وعلى المروة، وفي السعي، وفي عرفات، وفي مزدلفة، وفي منى، وعند الجمرات الثلاث، وزاد غيره وعند رؤية البيت، وفي الحطيم لكن الثاني هو تحت الميزاب فهو ستة عشر موضعا."

(كتاب الحج، فصل لم يدخل مكة ووقف بعرفة، ج: 2،ص: 378، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں