1۔آج کل ہمارے معاشرے میں ایک غیر ضروری رسم رائج ہو گئی ہے کہ جب نکاح منعقد ہوتا ہے تو اس وقت لڑکی والے بہت زیادہ مہر لکھواتے ہیں؛ مثلاً کئی تولہ سونا، مکان، گاڑی اور دیگر سامان وغیرہ آیا اتنا زیادہ مہر لکھوانا شرعی ہے یا غیر شرعی ہے؟ دونوں صورتوں میں قرآن وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں ۔
2۔ اگر لڑکی والے زبردستی اتنا زیادہ مہر لکھوا دیں کہ جو لڑکے کی استطاعت سے دور ہو اور لڑکا دل سے راضی نہ ہو، اس وقت تمام حضرات کی موجودگی میں لڑکا انکار نہیں کرتا تاکہ کوئی بدمزگی نہ ہو اور لڑکا لکھنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اب جب لڑکا لڑکی کو طلاق دینا چاہے تو اس صورت میں کیا لڑکے کے اوپر پورا مہر دینا واجب ہے یا نہیں؟
3۔ لڑکی کے گھر والے کچھ عرصہ کے بعد کسی وجہ سے داماد کو اپنے گھر لے جاتے ہیں اور لڑکے کو ذہنی دباؤ ڈال کر اس کو کہتے ہیں کہ لڑکی کو طلاق دے دو جب کہ اتنا مہر لکھوانے کی وجہ سے لڑکا طلاق نہیں دینا چاہتا، اور سسرال والے بضد ہوں کہ ہم لڑکی نہیں بھیجتے جب کہ لڑکی خود آنے کے لیے تیار ہو تو ایسی صورت میں اگر لڑکا طلاق دے تو جو مہر لکھوایا ہے وہ پورا مہر دینا ضروری ہےیا نہیں؟ کیوں کہ اتنا مہر شریعت کے مطابق نہیں یا پھر میں اس کو شرعی مہر دے فارغ کر سکتا ہوں؟ جب کہ میں طلاق دینے کے حق میں نہیں ہوں۔
1۔شریعتِ مطہرہ میں مہر کی کم سے کم مقدار تو متعین ہے کہ دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس کی قیمت سے کم نہ ہو اور موجودہ وزن کے حساب سے اس کی مقدار 30 گرام 618 ملی گرام بنتی ہے، لیکن مہر کی زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں بل کہ فریقین باہمی رضامندی سے جتنا مہر بھی مقرر کردیں وہ شوہر کے ذمہ واجب ہو جاتی ہے، البتہ زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاً ناپسندیدہ ہے اس لیےمہر شوہر کی حیثیت سے زیادہ مقرر نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ جتنا مہر مقرر کردیا جائے تو شرعاً اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ واجب ہوتی ہے، ادا نہ کرنے کی صورت میں شوہر گناہ گار ہوتا ہے، محض رسم ورواج کی وجہ سے زیادہ مہر مقرر کرنا مناسب نہیں ہے۔
2۔اگر لڑکا زیادہ مہر ادا نہ کر سکے تو لوگوں کا لحاظ کیے بغیر صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ میں اتنا مہر ادا نہیں کر سکتا لیکن جب چاہتے یانا چاہتے ہوئے جتنی مقدار پر رضامندی کا اظہار کر دیاتو ہر حال میں اس کی ادائیگی کرنا شوہر پر لازم ہے۔
3۔اللہ تعالیٰ کے ہاں حلال چیزوں میں سے سب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے اس لیے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا اگر لڑکی والے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کر رہےہیں تو ان کا یہ مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے، اور شوہر کو طلاق نہیں دینا چاہیے لیکن اگر لڑکی کو نا بھیج رہے ہوں تو اس صورت میں شوہر عورت کو طلاق نہ دے تاکہ عورت خود مہر کے بدلہ خلع لے لے۔
مشكاة المصابيح میں ہے :
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي".
(کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الثاني، ج : 2، ص : 285، ط : رحمانیة)
ترجمہ :
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خبردار ! تم عورتوں کے بھاری مہر نہ باندھو ۔ اگر یہ چیز دنیا میں بزرگی کا سبب اور اللہ کے ہاں تقویٰ کا ذریعہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے اور جہاں تک میں جانتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نکاح اور اپنی بیٹیوں کے نکاح بارہ اوقیہ سے زائد ( مہر ) پر نہیں کیے۔ یہ احمد ترمذی ابو داؤد نسائی، ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے۔"(از مظاہرِ حق)
وفيها ایضاً :
"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله الطلاق . رواه أبو داود".
(کتاب النکاح، باب الخلع والطلاق،الفصل الثاني، ج : 2، ص : 292)
ترجمہ :
"حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالی کے ہاں حلال چیزوں میں سےمبغوض ترین چیز طلاق ہے۔ یہ ابوداؤد کی روایت ہے۔" (از مظاہرِ حق)
فتاوی شامی میں ہے:
"والواجب بالعقد إنما هو مهر المثل، ولذا قالوا إنه الموجب الأصلي في باب النكاح وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به."
(کتاب النکاح، باب المہر، ج : 3، ص : 100، ط : سعید)
وفيه ايضا :
"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)....(قوله ويجب الأكثر) أي بالغا ما بلغ فالتقدير بالعشرة لمنع النقصان (قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه ظهر أن ما في الدرر من أن قوله عند وطء متعلق بالوجوب غير مسلم كما أفاده في الشرنبلالية: قال في البدائع: وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك، وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع".
(کتاب النکاح، باب المهر، ج : 3، ص : 102)
النتف فی الفتاوى میں ہے :
"واما المهر فانه لا نهاية لاكثره".
(کتاب النکاح، باب المهر، ج : 1، ص : 295، ط : مؤسسة الرسالة بيروت)
حاشیۃ بدائع الصنائع میں ہے :
"اتفق العلماء قاطبة على أن المهر ليس له نهاية كبرى ولا حد محدود لوقف عنده واختلفوا في نهايةالصغرى ".
(کتاب النکاح، فصل في أقل المَهْرِ، ج : 3، ص : 487، ط : دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے :
"سوال (١٣٧٦) فی زماننا شادی میں بہت زیادہ چالیس ہزار مہر مقرر ہوتا ہے حالانکہ گھر میں فاقہ کی نوبت ہوتی ہے مگر کم معیوب سمجھا جاتا ہے ایسا نکاح درست ہے یا کیا ؟
(الجواب ) مہر کا زیادہ کرنا اچھا نہیں سمجھا گیا اور شرعا پسندیدہ امر نہیں ہے باقی جو کچھ مہر مقرر کر دیا جاوے اگر چہ وہ شوہر کی حیثیت سے زیادہ ہو وہ مہر لازم ہو جاتا ہے اور نکاح ہو جاتا ہے۔ "
(کتاب النکاح،ساتواں باب، فصل اول: مسائل و احکام مہر، ج : 8، ص : 242، ط : دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100139
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن