اگر ایک آدمی کا ایک گھر ہو اور دوسرا گھر بھی ہو اپنا اور دوسرا گھر کرایہ پر دیا ہو اس پر زکات کیسے ہوتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں میں جب کہ دوسرا گھر بیچنے کی نیت سے نہ خریدا گیا ہو تو دوسرے گھر کی مالیت پر بھی زکات نہیں ہے۔ البتہ جمع ہونے والی کرائے کی رقم اگر زکات کا سال مکمل ہونے پر موجود ہو تو اس کو کل مال میں ملاکر نصاب کے بقدر پہنچتا ہو تو اس مال میں سے ڈھائی فیصد بطورِ زکات ادا کیا جائے گا۔
الفتاوى الهندية (1/ 179):
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."
وفیه أیضاً:
"و من کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه ... " الخ
(هندیة، کتاب الزکاة ۱/۱۷۵ ط رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205200075
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن