بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جا میری طرف سے تو فارغ ہےکہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری شادی 2016 میں ہوئی ،میں نے 2020 میں اپنی بیوی کو دومرتبہ طلاق دی،طلاق کے الفاظ یہ تھے،"جا میں نے تجھے طلاق دی،جا میں نے تجھے طلاق دی"تیسری مرتبہ جب میں نےطلاق کے الفاظ ادا کرنے کا ارادہ کیا تو بیوی نے میرے منہ  پر ہاتھ رکھ دیا،جس کی وجہ سے میں نے تیسری مرتبہ طلاق نہیں دی ،بعد ازاں تقریباً دوسال بعد گاؤں میں رات کے وقت میری بیوی مجھ سے مطالبہ کر رہی تھی کہ مجھے اس وقت بہن کے گھر لے جاؤ،میں نے کہا صبح لے کر جاؤں گا،ابھی تو بہت غیر مناسب ٹائم ہے،لیکن وہ اصرار کرتی رہی،جب اس کا اصرار زیادہ بڑھا تو میں نے اس کو کہا"جا میری طرف سے تو فارغ ہے"میرا ارادہ اس سے طلاق نہیں تھابلکہ اس وقت اس سے  چھٹکارا حاصل کرنا تھا،اب اس کے دوسال بعد  بیوی یہ مطالبہ کررہی ہےکہ میں (شوہر)نے اس کو تیسری مرتبہ بھی طلاق دے دی ہے،پوچھنا یہ ہے کہ کیا یہ تیسری طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ " جا میری طرف سے تو فارغ ہے"یہ جملہ   الفاظ کنایات میں سے ہے، اگران الفاظ سے  طلاق کی نیت  کی جائے یا طلاق کا مذاکرہ ہو تو ایک طلاقِ بائن واقع ہو جاتی ہے،    اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو یا طلاق کا مذاکرہ نہ ہو  تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ نے 2020  میں اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں  تو اس سے آپ کی بیوی پر دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئی تھیں، اس کے بعد اگر آپ نے رجوع کرلیا تھا،تو آپ کو مزید ایک طلاق دینے کا اختیار باقی تھا۔پھر اس کے دو سال بعد بیوی کا اپنے بہن کے گھر جانے کے پر زور اصرار پر فی الوقت اس سے جان چھڑانے کے لیے آپ نے مذکورہ الفاظ"جا میری طرف سے تو فارغ ہے"کہااور اس سے واقعۃً  آپ کی نیت طلاق کی  نہیں تھی،بلکہ ان الفاظ سے آپ کا مقصد بیوی سے فی الحال جان چھڑانا تھا،تاکہ اس کااصرار ختم ہوجائے،تو اس صورت میں آپ کی  بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،اورمیاں بیوی کا نکاح بدستورقائم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح ، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله : " أنت طالق " أو " أنت الطلاق ، أو طلقتك ، أو أنت مطلقة " مشددا."

(کتاب الطلاق ،فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية،ج:3،ص:101، ط :دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلاتحل له من بعد حتى تنكح زوجاً غيره} [البقرة: 230]، وسواء طلقها ثلاثاً متفرقاً أو جملةً واحدةً."

 (کتاب الطلاق،فصل في بيان حكم الطلاق،ج:3،ص:187،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"أن الصريح لا يحتاج إلى النية ولكن لا بد في وقوعه قضاء وديانة من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها."

( کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج: 3،ص:250،ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري أمرك بيدك سرحتك، فارقتك لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى.(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا.

وفي الرد: (قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق.

(قوله توقف الأولان) أي ما يصلح ردا وجوابا وما يصلح سبا وجوابا ولا يتوقف ما يتعين للجواب. بيان ذلك أن حالة الغضب تصلح للرد والتبعيد والسب والشتم كما تصلح للطلاق، وألفاظ الأولين يحتملان ذلك أيضا فصار الحال في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عنى به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه ولا يكذبه الظاهر فيصدق في القضاء، بخلاف ألفاظ الأخير: أي ما يتعين للجواب لأنها وإن احتملت الطلاق وغيره أيضا لكنها لما زال عنها احتمال الرد والتبعيد والسب والشتم اللذين احتملتهما حال الغضب تعينت الحال على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق في كلامه ظاهرا، فلا يصدق في الصرف عن الظاهر، فلذا وقع بها قضاء بلا توقف على النية كما في صريح الطلاق إذا نوى به الطلاق عن وثاق."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:296 تا 301، ط: سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل".

(کتاب الطلاق،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ج:6،ص:72،ط:دار المعرفة - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں