میں نے اپنی بیوی کو دو سال پہلے ان الفاظ کے ساتھ دو دفعہ طلاق دی تھی"میں طلاق دیتا ہوں"پھر اس کے بعد عدت کے اندر رجوع بھی کیا تھا،اب کسی جھگڑے میں میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ مجھے اپنی ماں کے گھر جانا ہےتو میں نے غصہ کی حالت میں اسے کہا کہ" جا میری طرف سے اپنی ماں کے گھر چلی جا"جب کہ میری طلاق کی نیت نہیں تھی،کیا ان الفاظ سےشرعاً طلاق واقع ہوگئی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نےغصہ کی حالت میں اپنی بیوی کو "جا میری طرف سے اپنی ماں کے گھر چلی جا"کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور اس جملہ کی ادائیگی کے وقت اگر واقعۃً طلاق کی نیت نہیں کی تھی تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی نکاح بدستور قائم ہے اور سائل کو آئندہ کے لیے بدستور ایک طلاق کا حق حاصل ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا ۔۔۔۔۔ ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال ۔۔۔۔۔۔۔ (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط)."
(کتاب الطلاق،باب الکنایات،296/3،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100252
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن