ہم تین بھائی ہیں، ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنی جائیداد شرعی گواہان کی موجودگی میں ہم تینوں بھائیوں میں تقسیم کردی اور ہر ایک بھائی کو قبضہ بھی دے دیا، لیکن سرکاری کاغذات میں کسی وجہ سے تینوں بھائیوں کا آدھا حصہ والد مرحوم کے نام رہ گیا ہے، میرے ایک بھائی نے میرے حصے کا آدھا حصہ جو کہ والد مرحوم کے نام رہ گیا تھا، سرکاری کاغذات میں وراثت میں ڈال دیا اور اب وہ آدھے حصے میں مجھ سے وراثت کے حصے کا مطالبہ کررہا ہے، جب کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں میرا حصہ مکمل میرے حوالہ کردیا تھا، جس پر گواہان بھی موجود ہیں اور 35 سال سے زمین میری ملکیت اور تصرف میں ہے، اور میں اس میں کاشت کررہا ہوں۔
کیا سرکاری کاغذات میں آدھا حصہ والد کے نام رہنے کی وجہ سے بھائی کا وراثت میں ڈالنا اور مجھ سے میراث کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ والد صاحب نے اپنی زندگی ہی میں مذکورہ جائیداد آپ کو اور آپ کے دو بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ حصے کرکے قبضہ اور تصرف کے ساتھ حوالہ کردیا تھا، تو اس طرح آپ اور آپ کے ہر ایک بھائی اپنے اپنے حصے کی جائیداد کے مالک بن چکے ہیں، والد صاحب کی وفات کےبعد آپ کے بھائی کا آپ کے آدھے حصے کو کاغذات میں وراثت میں ڈالنے کی وجہ سے وہ آدھا حصہ شرعاً ترکہ میں شامل نہیں ہو گا،اور نہ ہی بھائی کے لیے اس آدھے حصے میں سے اپنے شرعی میراث کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."
(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: رشيدية)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607103008
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن