بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جہیز اور چڑھاو کس کی ملکیت ہے؟


سوال

میرے چچا کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں صرف بیوہ، دو بھائی اور دو بہنیں ہیں،والدین کا پہلے انتقال ہوا ہے، میرے چچا کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ گھریلو معاملات کی وجہ سے ان بن ہوگئی تھی، سولہ سال تک دونوں علیحدہ رہیں، ان سولہ سالوں میں زوجین کو ملانے کی بہت کوشش کی گئی مگر نہیں ہوسکا، البتہ طلاق وغیرہ نہیں ہوئی تھی، اب ان کے انتقال کے بعد ان کی بیوہ کے گھر والے اپنے جہیز کے سامان وغیرہ واپس لے جانا چاہتے ہیں، لڑکے والے بھی سامان دینا چاہتے ہیں، دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ مرحوم کی جائیداد کی تقسیم کیسے ہوگی؟ جہیز وغیرہ جو بیوی لے کر آئی تھی، اس کا کیا حکم ہے؟اور جو کچھ چڑھاوا وغیرہ جو دونوں طرف سے چڑھائے گئے تھے، اس کا کیا حکم ہے؟

قرآن و حدیث کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں لڑکی جو کچھ سامان اپنے ساتھ جہیز میں لائی ہے وہ اسی کی ملکیت  ہے،  اور لڑکی والےجہیزکا سامان لڑکی کے لیے واپس لے جاسکتے ہیں،باقی  لڑکی کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو  پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے،اس صورت میں یہ زیورات لڑکے والے واپس لے سکتے ہیں۔باقی لڑکی والوں نے لڑکے کو جو چیزیں تحفتاً دی تھیں ایسی تمام چیزیں مرحوم کا ترکہ ہوں گی، جو بیوی سمیت دیگر تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوں گی۔

باقی مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرضہ ہو، اس کو ادا کرنے کے بعد اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو، اس کو باقی کل ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل منقولی و غیرِ منقولی جائیداد کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے 6حصے مرحوم کی بیوہ کو، 6 حصے مرحوم کے ہر ایک بھائی کو اور 3 حصے مرحوم کی ہر ایک بہن کو ملیں گے۔تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

مرحوم شوہر:24/4

بیوہبھائیبھائیبہنبہن
13
66633

فی صد کے اعتبار سے 25 فی صد بیوہ کو ،25 فی صد ہر ایک بھائی کو اور12.50 فی صدہر ایک بہن کو ملیں گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها وعليه الفتوى. ... وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك."

(کتاب النکاح،الباب السابع فی المهر،الفصل السادس في جهاز البنت،327/1،رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں