بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جہری نماز میں سورہ فاتحہ کی کچھ آیات آہستہ پڑھ کر پھر بلند آواز سے پڑھنے سے نماز کا حکم


سوال

امام نے مغرب کی دوسری رکعت میں بھول سے سورۂ فاتحہ کی شروع کی 2  آیات سرا ًپڑھیں پھر یاد آنے پر شروع  سےسورۂ فاتحہ  جہراً پڑھی تو نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

جن نمازوں میں یاجن رکعتوں میں آہستہ آواز سے  قراءت کرنا ضروری ہے اس میں اگر امام بلند آواز سے تلاوت کرلیتا ہے یا  جہری نماز میں آہستہ آواز سے تلاوت کرلیتا ہے تو اگر اتنی مقدار بلند آواز سے یا آہستہ آواز سے قراءت کرلے کہ جس مقدار قراءت سے نماز درست ہوجاتی ہے یعنی تین مختصر آیتوں یا ایک لمبی آیت کے بقدر ہوتو سجدہ سہو واجب ہوگا ، تین چھوٹی آیات کی مقدار 10کلمات اور 30 حروف ہیں۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  امام نے مغرب کی دوسری رکعت میں بھول سے سورۂ فاتحہ کی 2  آیات سرا ًپڑھی پھر یاد آنے پر شروع  سےسورۂ فاتحہ  جہراً پڑھی  ،سورۃ فاتحہ کی شروع کی 2 آیات میں حروف کی تعداد چونکہ 30 سے زیادہ ہے تو  سجدہ سہو لازم ہواہے اور اگر امام نے سجدہ سہو کرنا بھول گیا ہو یا  نہیں کیا ہو تو وقت کے اندر وہ نماز واجب الاعادہ تھی  اور وقت گزرنے کے بعداب وہ نماز ناقص ادا ہوئی،لہذا اس نماز کا اعادہ کرنا ذمہ سے ساقط  ہوگیا، نماز لوٹانا واجب نہیں ہے، البتہ لوٹا لے تو بہتر ہے، لیکن تحقیقی قول کے مطابق نماز وہی ہوگی جو پہلے ادا ہوچکی، اعادے سے اس کا نقص پورا کردیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(والجهر فيما يخافت فيه) للإمام (وعكسه) لكل مصل في الأصح والأصح تقديره (بقدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين. وقيل:) قائله قاضي خان يجب السهو (بهما) أي بالجهر والمخافتة (مطلقا) أي قل أو كثر(وهو ظاهر الرواية)"۔ (قوله والأصح إلخ) وصححه في الهداية والفتح والتبيين والمنية لأن اليسير من الجهر والإخفاء لا يمكن الاحتراز عنه، وعن الكثير يمكن، وما تصح به الصلاة كثير، غير أن ذلك عنده آية واحدة، وعندهما ثلاث آيات هداية.۔۔۔۔۔ (قوله وهو ظاهر الرواية) وقال في شرح المنية: والصحيح ظاهر الرواية، وهو التقدير بما تجوز به الصلاة من غير تفرقة لأن القليل من الجهر في موضع المخافتة عفو أيضا."

(ردالمحتار،كتاب الصلوة،باب سجود السهو،ج:2،ص:82،81،ط:سعید)

وفیه ايضاّ:

"وفي التتارخانية والمعراج وغيرهما: لو قرأ آية طويلة كآية الكرسي. أو المداينة البعض في ركعة والبعض في ركعة اختلفوا فيه على قول أبي حنيفة، قيل لا يجوز لأنه ما قرأ آية تامة في كل ركعة، وعامتهم على أنه يجوز لأن بعض هذه الآيات يزيد على ثلاث قصار أو يعدلها فلا تكون قراءته أقل من ثلاث آيات. اهـ. لكن التعليل الأخير ربما يفيد اعتبار العدد في الكلمات أو الحروف، ويفيد قولهم: لو قرأ آية تعدل أقصر سورة جاز، وفي بعض العبارات تعدل ثلاثا قصارا أي كقوله تعالى - {ثُمَّ نَظَرَ}[المدثر: 21] {ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ} [المدثر: 22] {ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ}[المدثر: 23]- وقدرها من حيث الكلمات عشر، ومن حيث الحروف ثلاثون."

(ردالمحتار،ج:1، ص: 538، ط: سعید)

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

الحنفية قالوا: واجبات الصلاة لاتبطل بتركها، ولكن المصلي إن تركها سهواً فإنه يجب عليه أن يسجد للسهو بعد السلام، وإن تركها عمداً؛ فإنه يجب عليه إعادة الصلاة فإن لم يعد كانت صلاته صحيحة مع الإثم."

(واجبات الصلوة، ج:1، ص:217، ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں