1۔میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی، بڑا بیٹا شادی شدہ تھا، اس کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا ہے، اس کے ورثاء میں والد، والدہ، بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں، بیوہ نے دوسری جگہ شادی کر لی ہے، بیٹے کے انتقال کے بعدلائف انشورنس کمپنی کی طرف سے گیارہ لاکھ روپے اس کے اکاؤنٹ میں آئے، بیٹے کے ذمہ بارہ لاکھ روپے قرض تھا تو گیارہ لاکھ روپے سے قرض کی ادائیگی میں ادا کردیے ہیں، کیا اس رقم میں اس کی اولاد یا ہمارا (والدین کا )بھی اس میں کوئی حصہ ہے؟ مزید یہ کہ میرا بیٹا جس کمپنی میں کام کرتا تھااس کمپنی کی طرف سے بارہ لاکھ روپے ملیں گے، اس میں تمام ورثاء کا کتنا حصہ بنتا ہے؟
2۔میرے دوسرے بیٹے کا دماغی توازن درست نہیں ہے اور بیٹی شادی شدہ ہے، میرا پوتا اور پوتی اپنی ماں کے پاس ہیں ان کا خرچہ میں دیتا ہے، اور میرا جو مکان ہے میں اس مکان کو اپنے پوتوں کے تحفظ کی خاطر اپنی بیٹی کے نام کروا سکتا ہوں؟
وضاحت : اس مکان کے علاوہ اور جائیداد نہیں ہے، ورثاء میں ایک بیوی، ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے جس کا دماغی توازن درست نہیں ہے، میں یہ مکان بیٹی کے نام اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تو میری بیٹی مذکورہ مکان ورثاء میں تقسیم کردے اور میرے پوتوں کو بھی اس سے کچھ حصہ دے دے۔
واضح رہے کہ مروجہ انشورنس سود اور جواکا مرکب اور مجموعہ ہے اور شرعاً یہ دونوں ہی حرام اور ناجائز ہیں، لہٰذا کسی بھی شخص کا انشورنس کا معاملہ کرنا سود اور جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے، اگر کسی نے لاعلمی میں انشورنس کا معاملہ کر لیا ہو توانشورنس کمپنی سے اس انشورنس کی مد میں ملنے والی رقم میں سے صرف اتنی ہی رقم لینا جائز ہےجتنی جمع کی تھی، جمع شدہ رقم سے زائد لینا جائز نہیں ہے، اگر کسی نے لے لی تو اس رقم کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہوتا، بلکہ ثوا ب کی نیت کے بغیر فقراء وغیرہ میں تقسیم کردینا ضروری ہوتا ہے۔
1۔صورتِ مسئولہ میں انشورنس کی مد میں جتنی رقم آپ کے بیٹے نے جمع کی تھی اس سے زائدرقم لینا آپ کے لیے جائز نہیں تھا، ا س لیے آپ کے بیٹے کی جمع شدہ رقم سے زیادہ جتنی بھی رقم وصول کی ہے معلوم کر کے اس زائد رقم کے بقدر حلال رقم بلانیت ثواب غرباء اور فقراء میں صدقہ کرنا ضروری ہے، لہٰذا اب کمپنی کی طرف سے جو بارہ لاکھ روپے ملیں گےاس میں سے انشورنس کی حرام سودی رقم کے بقدر رقم ثواب کی نیت کے بغیر فقراء وغیرہ میں تقسیم کردیں، اس کے بعد جو رقم بچ جائے وہ تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہو گی۔
ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے کل ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر میت پر قرض باقی ہے تو اس کو ادا کرنے کے بعد، اگر کوئی جائز وصیت کی ہے تو ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو /72 حصوں میں تقسیم کرکے /12 حصے مرحوم کے والد (سائل) کو،/12حصے والدہ کو، /9 حصے بیوہ کو، /26حصے بیٹے کو اور /13 حصے بیٹی کو ملیں گے۔
میت :24/ 72
والد | والدہ | بیوہ | بیٹا | بیٹی |
4 | 4 | 3 | 13 | |
12 | 12 | 9 | 26 | 13 |
یعنی فیصد کے تناسب سے٪16.666حصے والد کو، ٪16.666 حصے والدہ کو، ٪12.5 حصے بیوہ کو ، ٪36.111 حصے بیٹے کو اور ٪18.055حصے بیٹی کو ملیں گے۔
2۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کےانتقال کے بعد مذکورہ مکان میں سے آپ کے پوتوں کو بھی حصہ ملے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے پوتوں کے لیے وصیت کر دیں جو ایک تہائی ترکہ سے زائد نہ ہو، اور بہتر یہ ہے کہ وصیت کا اسٹامپ پیپر بنا کر اس پر گواہ بھی بنا دیں، بقیہ ورثاء اپنے شرعی حصوں کے بقدر خود بخود مالک بن جائیں گے بیٹی کے نام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90)"(سورة المائدة : 90)
ترجمہ :
"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں ۔ شیطانی کام ہیں۔ سوان سے بالکل الگ رہوتا کہ تم کو فلاح ہو۔" (از بیان القرآن)
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء" . رواه مسلم
(کتاب البیوع، باب الربوٰا، الفصل الأول، ج : 1، ص : 250، ط : رحمانیة)
ترجمہ :
" حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں اگر چہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔" (از مظاہر حق)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة ولو أوصى لوارثه ولا جنبي صح في حصة الأجنبي ويتوقف في حصة الوارث على إجازة الورثة إن أجازوا جاز وإن لم يجيزوا بطل ولا تعتبر إجازتهم في حياة الموصي حتى كان لهم الرجوع بعد ذلك كذا في فتاوى قاضيخان، ويعتبر كونه وارثاً أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية حتى لو أوصى لأخيه وهو وارث ثم ولد له ابن صحت الوصية للاخ ولو أوصى لأخيه وله ابن ثم مات الابن قبل موت الموصي بطلت الوصية للأخ كذا في التبيين".
(کتاب الوصایا، الباب الاول، ج : 6، ص : 109، ط : دار الکتب العلمیة)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :
"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته".
(کتاب الوصایا، ج : 6، ص : 650/51، ط : سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100209
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن