1۔کیاباپ اپنی زندگی میں یا مرض الوفات میں اپنی ساری وراثتی اور خرید کردہ جائیداد بچیوں کے نام کر سکتا ہے ؟
قرآن و حدیث کے مطابق 2/3 بچیوں کا تھا۔1/3 باقی بہنوں اور بھائیوں کا تھا جس سے انہیں محروم کر دیا گیا تو :
3۔ اب باپ وفات پا گیا ہے اور اس کے نام مکان اور جانوروں کی حویلی بقایا ہے مہربانی فرما کر بتائیں کہ اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
متوفی کی ایک بیوہ، تین بیٹیاں ، دو بھائی اور دو بہنیں زندہ ہیں والدین وغیرہ وفات پا گئے ہیں۔
تفصیلی جواب درکار ہے، کیوں کہ متوفی کے بہن بھائی اپنے بھائی کی زندگی میں بیٹیوں کو جائیداد دینے کے فیصلے سے خوش نہیں کیوں کہ اس طرح وہ اسلامی نقطہ نظر سے 1/3 کے وارث قرار پا سکتے تھے، اس نے ساری جائیداد بچیوں کے نام کر دی جب کہ شاید اسلامی نقطہ سے وہ 2/3 حصہ کا ہبہ کر سکتا تھا یا 1/3 کی وصیت اور باقی دیگر وارثان کی۔
واضح رہے کہ اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے ہونے والے ورثاء کے درمیان جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو شریعت کا اس میں حکم یہ ہے کہ جائیداد تقسیم کرنے والا اپنی ضرورت کے بقدر جتنا چاہے اپنے استعمال کے لیے روک کر باقی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو اپنی اولاد کے درمیان برابر سرابر تقسیم کرے ، کسی کے حق میں بغیر کسی معقول وجہ کے کمی بیشی کرنا اُس کے لیے درست نہیں ہے، ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر کوئی بیٹا/ بیٹی دوسروں کی بنسبت زیادہ ضرورت مند ہو، یا کوئی بیٹا/ بیٹی دوسروں کی بنسبت زیادہ دیندار ہو یا زیادہ خدمت گزار ہو تو یہ وجوہات ایسی ہیں جن کی بنا پر کمی بیشی کرتے ہوئے تقسیم کرنے کی شریعت نے اجازت دی ہے۔
لہذا اگر باپ اپنی جائیداد بچیوں کے نام کردیتا ہے اور بچیوں میں سے ہر ایک کا حصہ الگ کر کے اس کے قبضہ میں دے دیتا ہے تو یہ جائز ہوگا،باقی بہن بھائیوں کو نہ بھی دے تو شرعاً درست ہے ۔مذکورہ صورت میں ہر بیٹی اپنے اپنے حصے کی مالک ہے۔
اور اگر صرف نام کیا ہو قبضہ اور تصرف نہیں دیاہو، تو پھر یہ متوفی کی ملکیت ہوکر ترکہ شمار ہوگی اور بطور میراث اس کی تقسیم لازمی ہے۔
ملحوظہ:یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ زندگی میں ہبہ کیا ہو اور اگر مرض الموت میں وارث کے لیے ہبہ (گفٹ )کیا تو وہ وصیت کے حکم میں ہے اور وارث کے لیے بدونِ اجازت باقی ورثاء وصیت کا نفاذ ہوتا ہی نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر مورث کا انتقال ہوگیا ہواور اس کی جائیداد موجود ہے اور ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹیاں ، دو بھائی اور دو بہنیں موجود ہیں تو اس کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے میت کے حقوقِ متقدمہ یعنی اس کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد دیکھا جائے گا کہ اگر میت کے ذمہ کوئی قرض ہے تو اس کو ادا کرکے اگر میت نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کو 144حصوں میں تقسیم کرکے18 حصے بیوہ کو ،32/32 حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ، 10/10حصے مرحوم کے ہر ایک بھائی کو جب کہ 5/5 حصے مرحوم کی ہر ایک بہن کو ملیں گے۔
متوفی:24/ 144
بیوہ | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بھائی | بھائی | بہن | بہن |
3 | 16 | 5 | |||||
18 | 32 | 32 | 32 | 10 | 10 | 5 | 5 |
یعنی مثلاً ایک سو روپے میں سے 12.5 روپے مرحوم کی بیوہ کو ، 22.22 روپے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ، 6.94 روپے مرحوم کے ہر ایک بھائی کو جبکہ3.47 روپے مرحوم کی ہر ایک بہن کو ملیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها.....
أن الضابط في هذا المقام أن الموهوب إذا اتصل بملك الواهب اتصال خلقة، وأمكن فصله لا تجوز هبته ما لم يوجد الانفصال، والتسليم وإن اتصل اتصال مجاورة فإن كان الموهوب مشغولا بحق الواهب لم يجز."
(کتاب الھبة، ج:5 ،ص:691، ط:سعید)
فیہ ایضاً:
"وفي المرض المعتبر المبيح لصلاته قاعدا.....وهبته ووقفه وضمانه) كل ذلك حكمه (ك) حكم (وصية فيعتبر من الثلث)
(قوله: وهبته) أي إذا اتصل بها القبض قبل موته، أما إذا مات ولم يقبض فتبطل الوصية لأن هبة المريض هبة حقيقية وإن كانت وصية حكما كما صرح به قاضي خان وغيره اهـ ط عن المكي (قوله: حكمه كحكم وصية) أي من حيث الاعتبار من الثلث لا حقيقة الوصية لأن الوصية إيجاب بعد الموت، وهذه التصرفات منجزة في الحال زيلعي."
(کتاب الوصایا، باب العتق في المرض، ج:6، ص:680، ط:سعید)
فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:
"قال (ولا تجوز لوارثه) لقوله عليه الصلاة والسلام «إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث» ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه.
(قوله ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه) قال صاحب العناية: قوله بالحديث الذي رويناه إشارة إلى ما تقدم في كتاب الهبة فيمن خصص بعض أولاده في العطية انتهى. أقول: هذا خبط ظاهر من الشارح المزبور إذ لم يتقدم من المصنف في كتاب الهبة ذكر حديث في حق من خصص بعض أولاده في العطية، بل لم يتقدم منه ثمة ذكر تلك المسألة قط فكيف تتصور الحوالة عليه بها هاهنا.
والصواب أن مراد المصنف هنا بقوله بالحديث الذي رويناه هو الإشارة إلى ما ذكره في هذا الكتاب فيما مضى عن قريب بقوله وقد جاء في الحديث «الحيف في الوصية من أكبر الكبائر» وفسروه بالزيادة على الثلث وبالوصية للوارث انتهى".
(کتاب الوصایا، ج:10، ص:423، ط:دارالفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب."
(كتاب الهبة، الباب الاول، ج:4، ص:374، ط:رشيديه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201958
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن