بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جائیداد کی تقسیم/ لاپتہ شخص کا وراثت میں حصہ ہوگا یا نہیں؟


سوال

میری خالہ کا انتقال ہوگیا ہے،ورثاء میں شوہر ،دو بہنیں،ایک بھتیجا اور تین بھانجیاں ہیں، مرحومہ کی  اولاد کوئی نہیں ہے،البتہ مرحومہ کےشوہر کا پہلی بیوی سے ایک بیٹاہے، مرحومہ کے والدین  مرحومہ سے پہلے ہی وفات پاچکے ہیں،مرحومہ کے  بھائیوں  کابھی  مرحوم سے پہلے ہی انتقال ہوگیا ہے اورایک بھائی 44 سال سے لاپتہ ہیں ان کی عمر کم از کم ستر  سال سے زیادہ ہے،پوچھنایہ ہے کہ مرحومہ کی جائیداد میں کس کس کو حصہ ملے گا اور کتنا ملے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  مرحومہ   کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو  بقیہ مال کے ایک  تہائی  سے نافذ کرنے کے بعد،مابقیہ کل مال کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے کو  شوہر کو  چار حصے ، بھائی(مفقود، جو لاپتہ ہے) کو د و حصے اورہر ایک بہن  کو  ایک ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

مرحومہ   بیوی:2/ 8

شوہربھائی (مفقود)بہنبہن
11
4211

یعنی فیصد کے اعتبار سے  شوہر کو 50 فیصد بھائی(مفقود) کو 25 فیصد اور ہر ایک بہن کو 12.5 فیصد ملیں گے۔

نوٹ: مفقود کی عمر جب تک ساٹھ سال نہ ہوجائے اور رعدالت اس کی موت کی تصدیق نہ  کردے،اس وقت تک اس کو زندہ تصور کیا جائےگا،صورت مسئولہ میں چونکہ عدالت سے ابھی تک مفقود(بھائی) کی موت کی تصدیق اور فیصلہ نہیں ہواہے ،اس لیے جب تک عدالت کی طرف سے اس کی موت کی تصدیق وفیصلہ  نہ ہوجائے،اس وقت تک مفقود کا حصہ بطور امانت محفوظ رکھاجائے اور بعد از عدالتی تصدیق وفیصلہ کے اس حصہ كو  مرحومہ کے انتقال کےوقت مفقود بھائی کے علاوہ جود ورثاءہیں ان کے مابین تقسیم کیا جائےگا۔

نوٹ: مرحومہ  کےمفقود بھائی کی اولاد کا مرحومہ کے ترکہ میں شرعاً  کوئی حصہ نہیں ہے،البتہ اگر ورثاء اپنی رضامندی اور خوش دلی سے کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

فتح القدير میں ہے:

"قال المصنف:( والأرفق ) أي بالناس ( أن يقدر بتسعين )وأرفق منه التقدير بستين .

وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي."

(كتاب المفقود، ج:  6، ص: 149، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وفي واقعات المفتين لقدري أفندي معزيا للقنية أنه إنما يحكم بموته بقضاء لأنه أمر محتمل، فما لم ينضم إليه القضاء لا يكون حجة (فإن ظهر قبله) قبل موت أقرانه (حيا فله ذلك) القسط (وبعده يحكم بموته في حق ماله يوم علم ذلك) أي موت أقرانه (فتعتد) منه (عرسه للموت ويقسم ماله بين من يرثه الآن و) يحكم بموته (في) حق (مال غيره من حين فقده فيرد الموقوف له إلى من يرث مورثه عند موته).

قوله: بقضاء إلخ) هو أحد قولين. قال القهستاني: وفي الفاء من قوله فتعتد عرسه دلالة على أنه يحكم بموته بمجرد انقضاء المدة فلا يتوقف على قضاء القاضي كما قال شرف الأئمة وقال نجم الأئمة القاضي عبد الرحيم نص على أنه يتوقف عليه كما في المنية. اهـ. وما قاله شرف الأئمة موافق للمتون سائحاني. قلت: لكن المتبادر من العبارة أن المنصوص عليه في المذهب الثاني. ثم رأيت عبارة الواقعات عن القنية أن هذا أي ما روي عن أبي حنيفة من تفويض موته إلى رأي القاضي نص على أنه إنما يحكم بموته بقضاء إلخ."

(كتاب المفقود، ج:4، ص: 297، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"(ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه في بلده على المذهب) لأنه الغالب.

(قوله: إلى موت أقرانه) هذا ليس خاصا بالوصية بل هو حكمه العام في جميع أحكامه من قسمة ميراثه وبينونة زوجته وغير ذلك (قوله: في بلده) هو الأصح بحر، وقيل المعتبر موت أقرانه من جميع البلاد فإن الأعمار قد تختلف طولا وقصرا بحسب الأقطار بحسب إجرائه سبحانه العادة......(قوله: على المذهب) وقيل يقدر بتسعين سنة بتقديم التاء من حين ولادته واختاره في الكنز، وهو الأرفق هداية وعليه الفتوى ذخيرة، وقيل بمائة، وقيل بمائة وعشرين، واختار المتأخرون ستين سنة."

(كتاب المفقود، ج:4، ص: 426، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں