بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

جعل سازی سے حاصل ہونے والی رقم کا حکم


سوال

کیافرماتے ہیں اس مسئلہ کی بابت کہ چائنہ میں میرا دفتر ہے، لوگ پاکستان سے آتے ہیں چائنہ میں مال خریدتے ہیں، جو لوگ مال خریدتے ہیں، وہ اپنے مال کو میرے دفتر میں جمع کرتے ہیں، بلٹی کرنے کے لئے، تو چائنہ کی جو حکومت والے ہیں انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اگر آپ نے ایک کنٹینر مال کاٹن کا کپڑا چائنہ سے لیں گے تو ہم آپ کو اس کنٹینر مال پر سو روپے انعام دیں گے، تو میں مختلف قسم کے مال ایک کنٹینر میں جمع کرتا ہوں، جو مال میں کنٹینر میں ڈالتا ہوں وہ سب میں کاغذات میں لکھتا ہوں، اس کے بعد چائنہ کا ایک آدمی میرے پاس آتا ہے اور کنٹینر کے کاغذات میرے سے لے جاتے ہیں، وہ آدمی آگے حکومت کو بولتا ہے کہ اس کنٹینر میں صرف کاٹن کا کپڑا ہے، حکومت والے اس کو سو (100) روپے دیتے ہیں، وہ آدمی اسی (80) روپے میرے کو دیتا ہے اور بیس (20) روپے خود رکھتا ہے، کیا یہ اسی روپے میرے لئے جائز ہے یانہیں؟

وضاحت: میں کاغذات میں وہی مال لکھتا ہوں جو کنٹینر میں موجود ہوتا ہے، لیکن چائنہ کا آدمی آگے حکومت کو جھوٹ بولتا ہے کہ اس کنٹینر میں صرف کاٹن کا کپڑا ہے، گویا اس آدمی کی جھوٹ کی وجہ سے مجھے یہ اسی (80) روپے ملے۔

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے لئے مذکورہ اسّی روپے کی رقم  لینا جائز نہیں، کیونکہ یہ رقم جعل سازی اور دھوکہ دہی کے سبب حاصل ہوئی ہے، لہذا سائل اس رقم کو وصول کرنے سے اجتناب کرے۔ نیز اگر چائنہ حکومت کی طرف سے ضابطہ یہ ہے کہ اس قسم کی انعام / تبرع کی رقم اسے دیتی ہے جو  ایک  کنٹینر کاٹن کا کپڑا خریدے، تو ایسی صورت میں اگر پورے کنٹینر میں کاٹن کپڑا ہونے کے باوجود بھی سائل کے لئے اس مد میں کسی قسم کی انعامی رقم کا لینا جائز نہیں، اس لئے کہ سائل خریدار نہیں ہے بلکہ سائل کی حیثیت بروکر کی ہے، لہذا اس انعام کی رقم کا اصل حقدار خریدار ہے سائل نہیں۔لہذا سائل اس رقم کو لینے کی صورت میں خریداروں کو حوالہ کرے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فإنما حصل له الربح فيه بسبب خبيث شرعا والسبيل في ‌الكسب ‌الخبيث التصدق۔"

(كتاب الكراهية، فصل في البيع: 6/ 27، ط: دار المعرفة، بيروت)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية  میں ہے:

"المتبرع ‌لايرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات: 2/ 226، ط: دار المعرفة)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود:

"لأن ‌الخائن ‌هو ‌الذي ‌يأخذ ‌ما ‌ليس ‌له أخذه ظلما أو عدوانا۔"

(كتاب البيوع، باب: في الرجل يأخذ حقه من تحت يده: 11/ 262، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں