بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جمع بین الصلاتین کا حکم اور ایسے امام کی اقتداء کرنا


سوال

سعودی عرب میں جمع بین الصلاتین کرتے ہیں، اگر ہم شرکت نہ کریں تو لوگ غصہ ہوتے ہیں، جب کہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ امام صاحب کون سی نماز پڑھارہے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت میں  ہرنماز  کی ابتدا کا وقت بھی مقرر ہے  اور اس کے ختم ہونے کا بھی وقت مقررہے، چاہے وہ فجر کی نمازہو، یاظہر کی نمازہو، یاعصر کی نمازہو، یامغرب ہو، یاعشاء ہو،یا جمعہ ہو؛ان نمازوں کو اپنے اوقات میں پڑھنافرض ہے؛  اس لیے احناف کے نزدیک دوفرض نمازوں کو حقیقتاً ایک وقت میں جمع کرنا  مقیم یا مسافر کسی کے لیے بھی جائز نہیں ہے، البتہ بیماری یا  سفر  وغیرہ کے عذر کی وجہ  سے  دونمازوں  کو صورتاًجمع کرناجائزہے جیسے مغرب کوآخری وقت میں ادا کیاجائے اورمغرب کی نماز سے فارغ ہوکر عشاء کی نماز کو  اول  وقت میں ادا کیا جائے  ۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل ( حنفی مقلّد ) کے لیے دونمازوں کو ایک وقت میں  جمع  کرنا  جائز نہیں ہے،   امام اگر  ظہر کے وقت میں  ظہر کی نماز ادا کررہا ہو تو  اس کی اقتداء میں ظہر کے فرض ادا کرناجائز ہے، لیکن اس کے بعد جب وہ  ظہر ہی کے وقت میں  عصر  کی نماز ادا کرناشروع کرے تو عصر کی نماز اس کی اقتداء میں درست  نہیں ہوگی، اگر مجبوری  میں نماز میں شریک ہونا پڑے تو نفل کی نیت سے شریک ہوسکتے ہیں، اور جب عصر کا وقت داخل ہوجائے تو اس وقت اپنی عصر کی نماز ادا کرلی جائے۔

نیز اقتداء کے صحیح ہونے کے لیے امام اور  مقتدی کی نماز کا ایک ہونا بھی شرط ہے،امام  عصر کی نماز پڑھارہا  ہو اور مقتدی  ظہر کی نماز کی نیت کرکے اقتداء کرے یا  اس کے برعکس  ہو تو اس  صورت میں  مقتدی  کی نماز ادا نہیں ہوگی ،   لہذا   اگر  ظہر کی  نماز كا وقت ہو اور جماعت ہورہی ہو اور  مقتدی  ظہر کی نیت سے اقتداء کرلے  اور بعد میں معلوم ہوا کہ ظہر کی نماز تھی تو نماز درست ہوگئی، لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ امام عصرکی نماز پڑھارہا تھا تو مقتدی کی ظہر کی نماز نہیں ہوگی، اس  کا  اعادہ ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) لا (مفترض بمتنفل وبمفترض فرضا آخر) لأن اتحاد الصلاتين شرط عندنا. وصح «أن معاذا كان يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم  نفلا وبقومه فرضا 

(قوله: وبمفترض فرضا آخر) سواء تغاير الفرضان اسما أو صفة كمصلي ظهر أمس بمصلي ظهر اليوم؛ بخلاف ما إذا فاتتهم صلاة واحدة من يوم واحد فإنه يجوز؛ وكذا لو صلى ركعتين من العصر فغربت الشمس فاقتدى به آخر في الأخريين لأن الصلاة واحدة وإن كان هذا قضاء للمقتدي جوهرة.

(قوله: لأن اتحاد الصلاتين إلخ) قدمنا أول الباب معنى اتحادهما (قوله وصح أن معاذا إلخ) أي صح عند أئمتنا وترجح، وهو جواب عما استدل به الشافعي على جواز الفرض بالنفل وهو ما في الصحيحين «أن معاذا كان يصلي مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عشاء الآخرة ثم يرجع إلى قومه فيصلي بهم تلك الصلاۃ والجواب «أن معاذا لما شكاه قومه قال له - صلى الله عليه وسلم - يا معاذ لا تكن فتانا، إما أن تصلي معي، وإما أن تحفف على قومك» رواه أحمد. قال الحافظ ابن تيمية: فيه دلالة على منع اقتداء المفترض بالمتنفل لأنه يدل على أنه متى صلى معه امتنعت إمامته وبالإجماع لا تمتنع إمامته بصلاة النفل معه، فعلم أن الذي كان يصليه مع النبي - صلى الله عليه وسلم - نفل. اهـ. وقال الإمام القرطبي في المفهم: الحديث يدل على أن صلاة معاذ مع النبي - صلى الله عليه وسلم - كانت نافلة وكانت صلاته بقومه هي الفريضة، وتمامه في حاشية نوح أفندي وفتح القدير."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامة، 1/ 580، ط:سعید)

وفیہ أیضاً

"أن العلم بحال الإمام شرط لكن في حاشية الهداية للهندي الشرط العلم بحاله في الجملة لا في حال الابتداء.

(قوله: لكن إلخ) ... وحاصله: تسليم اشتراط العلم بحال الإمام ولكن لا يلزم كونه في الابتداء فحيث لم يعلموا ابتداء بحاله كان الإخبار مندوبا وحينئذ فلا مخالفة فافهم وإنما لم يجب مع كون إصلاح صلاتهم يحصل به وما يحصل به ذلك فهو واجب على الإمام لأنه لم يتعين، فإنه ينبغي أن يتموا ثم يسألونه كما في البحر أو لأنه إذا سلم على الركعتين فالظاهر من حاله أنه مسافر حملا له على الصلاح، فيكون ذلك مندوبا لا واجبا لأنه زيادة إعلام كما في العناية.

أقول: لكن حمل حاله على الصلاح ينافي اشتراط العلم، نعم ذكر في البحر عن المبسوط والقنية ما حاصله: أنه إذا صلى في مصر أو قرية ركعتين، وهم لا يدرون فصلاتهم فاسدة وإن كانوا مسافرين لأن الظاهر من حال من كان في موضع الإقامة أنه مقيم والبناء على الظاهر واجب حتى يتبين خلافه، أما إذا صلى خارج المصر لا تفسد، ويجوز الأخذ بالظاهر وهو السفر في مثله. اهـ. والحاصل أنه يشترط العلم بحال الإمام إذا صلى بهم ركعتين في موضع إقامة وإلا فلا."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، 2/ 129-130، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144609100598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں