اگر جماعت کی نماز چھوٹ جائے تو اکیلے کیسے پڑھیں؟ جو پہلے والی چار سنتیں ہیں، ان کو پہلے پڑھیں گے یا بعد میں؟
اگر جماعت کی نماز چھوٹ جائے تو اس نماز کو انفرادی طور پر پڑھنے کا طریقہ وہی ہے جو دو یا چار رکعت سنتِ مؤکدہ کو پڑھنے کا طریقہ ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد مزید قراءت مسنون نہیں ہے، بس سورہ فاتحہ پڑھ کر رکوع کرلینا چاہیے، جو سنتیں فرض نماز سے پہلے کی ہیں، مثلًا: ظہر کی چار رکعت سنتِ قبلیہ، ان کو فرض نماز انفرادی پڑھنے کی صورت میں بھی فرض نماز سے پہلے ہی پڑھا جائے گا اور سنتِ بعدیہ کو فرض کے بعد ہی پڑھا جائے گا، چاہے فرض نماز جماعت سے پڑھی جائے یا انفرادی طور پر پڑھی جائے، فقہاءِ کرام نے سنتِ قبلیہ اور بعدیہ کی الگ الگ حکمت بیان کی ہے، مثلًا سنتِ قبلیہ کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ سنتِ قبلیہ پڑھنے سے شیطان کی اس شخص کے بارے میں نماز چھوڑنے کی طمع اور امید ختم ہوجاتی ہے، جب کہ سنتِ بعدیہ کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ نماز میں جو کمی کوتاہی رہ جائے، سنتِ بعدیہ سے اس کی تلافی ہوجائے؛ لہٰذا سنتِ قبلیہ کو فرض نماز کے بعد پڑھنے کی صورت میں یہ حکمت بھی فوت ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ سننِ قبلیہ کو فرض نما زکے بعد ادا کرنے کا حکم صرف ظہر اور فجر کی نماز میں مخصوص حالت میں (جماعت سے ادا کرتے ہوئے) ہے، باقی تین نمازوں میں تو فرض سے پہلے سننِ مؤکدہ ہی نہیں ہیں، لہٰذا ان میں فرض کے بعد سننِ قبلیہ پڑھنے کا سوال ہی نہیں ہے۔
چناں چہ اگر ظہر کی فرض نماز کی جماعت شروع ہوچکی ہو تو یہ حکم ہے کہ اس کی سننِ قبلیہ چھوڑ کر فرض نماز میں شامل ہوجائے اور فرض نماز کے بعد سننِ بعدیہ پڑھ کر پھر سننِ قبلیہ پڑھ لے، کیوں کہ حدیث مبارک میں اس کا ثبوت موجود ہے، اور فجر میں حکم یہ ہے کہ جب تک امام کو قعدہ اخیرہ میں پانے کی امید ہو تب تک سنتِ فجر نہ چھوڑے، بلکہ کسی ستون وغیرہ کی آڑ میں سنتیں ادا کرکے امام کے ساتھ شامل ہو، اور اگر جماعت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اسی دن زوال سے پہلے پہلے فجر کی سنتیں پڑھ لے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 458):
"(وضم) أقصر (سورة) كالكوثر أو ما قام مقامها ...(في الأوليين من الفرض) وهل يكره في الأخريين؟ المختار لا.
(قوله: في الأوليين) تنازع فيه قراءة وضم في قول المصنف قراءة فاتحة الكتاب وضم سورة ؛ لأن الواجب في الأوليين كل منهما فافهم. (قوله: وهل يكره) أي ضم السورة (قوله: المختار لا) أي لا يكره تحريما بل تنزيها ؛ لأنه خلاف السنة. قال في المنية وشرحها: فإن ضم السورة إلى الفاتحة ساهيا يجب عليه سجدتا السهو في قول أبي يوسف لتأخير الركوع عن محله وفي أظهر الروايات لا يجب ؛ لأن القراءة فيهما مشروعة من غير تقدير، والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب. اهـ. وفي البحر عن فخر الإسلام: أن السورة مشروعة في الأخريين نقلا. وفي الذخيرة أنه المختار. وفي المحيط وهو الأصح. اهـ. والظاهر أن المراد بقوله نفلا الجواز، والمشروعية بمعنى عدم الحرمة فلا ينافي كونه خلاف الأولى كما أفاده في الحلية.
وفيه ايضا (2/ 12):
’’(وسنّ) مؤكدًا (أربع قبل الظهر و) أربع قبل (الجمعة و) أربع (بعدها بتسليمة) فلو بتسليمتين لم تنب عن السنة، ولذا لو نذرها لا يخرج عنه بتسليمتين، وبعكسه يخرج (وركعتان قبل الصبح وبعد الظهر والمغرب والعشاء) شرعت البعدية لجبر النقصان، والقبلية لقطع طمع الشيطان.
(قوله: لجبر النقصان) أي ليقوم في الآخرة مقام ما ترك منها لعذر كنسيان، وعليه يحمل الخبر الصحيح أن فريضة الصلاة والزكاة وغيرهما إذا لم تتم تكمل بالتطوع، وأوله البيهقي بأن المكمل بالتطوع هو ما نقص من سنتها المطلوبة فيها: أي فلا يقوم مقام الفرض الحديث الصحيح «صلاة لم يتمها زيد عليها من سبحتها حتى تتم» فجعل التتميم من السبحة أي النافلة لفريضة صليت ناقصة لا لمتروكة من أصلها. وظاهر كلام الغزالي الاحتساب مطلقًا، وجرى عليه ابن العربي وغيره لحديث أحمد الظاهر في ذلك اهـ من تحفة ابن حجر ملخصا. وذكر نحوه في الضياء عن السراج، وسيذكر في الباب الآتي أنها في حقه صلى الله عليه وسلم لزيادة الدرجات. (قوله: لقطع طمع الشيطان) بأن يقول إنه لم يترك ما ليس بفرض فكيف يترك ما هو فرض ط. ‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144209200116
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن