ایک چودہ سالہ لڑکے کو یہ نہیں پتا تھا کہ مشت زنی کرنا حرام ہے اور یہ کہ اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے، اس نے اسی حالت میں تین عمرے کر لیے، اب اس سے متعلق تین سوال ہیں :
(1) کیا اس کو ہر حالت میں دم دینا ہو گا یا کیا وہ ان عمروں کی قضاء کر سکتا ہے؟
(2) کیا اس کو تین دم دینے ہوں گے؟
(3)کیا ناپاکی کی حالت میں رکھے گئے روزوں کا اعادہ کرنا ہو گا؟
(2/1)صورتِ مسئولہ میں اگر مذکوہ لڑکا مکہ مکرمہ میں موجود ہو تو مذکورہ تینوں عمروں کا اعادہ لازم ہے ، اگر ان تینوں عمروں کا اعادہ پاکی کے حالت میں کرلیاتو اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا اور اگر مذکورہ لڑکا اپنے وطن واپس لوٹ آیا تو اس پر ہر عمرہ کا الگ الگ دم (تین بکریوں کا حدود حرم میں ذبح کرنا)اس پر لازم ہے۔ باقی ملحوظ رہے کہ مشت زنی کرنا حرام اور ناجائز فعل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس فعل کی سخت مذمت اور وعید بیان فرمائی ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے دن مشت زنی کرنے والا اس حال میں آئے گا کہ اس کا ہاتھ حاملہ ہوگا، اسی طرح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی سات لوگوں کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھں گے اور ان کو سب سے پہلے جہنم میں داخل کریں گے ان میں سے ایک م اس لیے مذکورہ لڑکے پر لازم ہے کہ وہ آئندہ مذکورہ فعل ہرگز نہ کرے۔
(3) روزے کے دوران مشت زنی نہ کی ہو، البتہ جنابت کی حالت میں روزے رکھے ہوں تو جنابت کی حالت میں رکھے ہوئے روزوں کا اعادہ لازم نہیں ہے۔ ہاں جو نمازیں جنابت کی حالت میں پڑھی گئی ہوں ان کی قضا لازم ہے۔
شعب الاِیمان میں ہے:
"عن أنس بن مالك عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا إلا أن يتوبوا إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه، الناكح يده، والفاعل والمفعول به، ومدمن الخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوا، والناكح حليلة جاره". قال البخاري في "التاريخ" قال قتيبة عن حميد هو الرؤاسي عن مسلمة بن جعفر عن حسان بن حميد عن أنس بن مالك قال: يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى."
(السابع والثلاثون من شعب الإيمان وهو باب في تحريم الفروج وما يجب من التعفف عنها، ج:4، ص:378، دار الكتب العلمية، بيروت)
"ترجمہ:حضرت انس ابن مالک رضی اللہ سے مروی ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات لوگوں اللہ تعالی (نظر رحمت سے)نہیں دیکھیں گے اور نہ ان کا تزکیہ کریں گےاور نہ ان کو دیگر لوگوں کے ساتھ جمع کریں گے ان کو سب سے پہلے جہنم میں داخل کریں گے، مگر یہ کہ وہ توبہ کریں، مگریہ کہ وہ توبہ کریں، مگر یہ کہ وہ توبہ کریں، پس جو توبہ کرے اللہ تعالی اس پر مہربانی فرمائیں گے، (1) مشت زنی کرنے والا، (2/3) فاعل اور مفعول(یعنی قوم لوط کا عمل کرنے والے)، (4)شراب پر مداومت اختیار کرنے والا، (5)اپنے والدین کو مارنے والا یہاں تک کے وہ(والدین) اوروں کو مدد کے لیے پکارے،(6) اپنے پڑوسیوں کو ایذاء پہنچانے والا یہاں تک کے پڑوسی اس پر لعن طعن کرنے لگے، (7)اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا.اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مشت زنی کرنے والا قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ہاتھ حاملہ ہوگا۔"
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا طاف للعمرة محدثا أو جنبا فما دام بمكة يعيد الطواف فإن رجع إلى أهله ولم يعد ففي المحدث تلزمه الشاة وفي الجنب تكفيه الشاة استحسانا هكذا في المحيط.ومن طاف لعمرته وسعى على غير وضوء فما دام بمكة يعيدهما فإذا أعادهما لا شيء عليه فإن رجع إلى أهله قبل أن يعيد فعليه دم لترك الطهارة فيه ولا يؤمر بالعود لوقوع التحلل بأداء الركن وليس عليه في السعي شيء وكذا إذا أعاد الطواف ولم يعد السعي في الصحيح كذا في الهداية."
(كتاب المناسك، الباب الثامن في الجنايات، الفصل الخامس في الطواف والسعي والرمل ورمي الجمار، ج:1، ص:247، ط:دارالفکر بیروت)
وفیہ ایضاً:
"ومن أصبح جنبا أو احتلم في النهار لم يضره كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الصوم، الباب الثالث فيما يكره للصائم وما لا يكره، ج:1، ص:200، ط:دارالفکر بیروت)
وفیہ ایضاً:
"وهي عندنا سبعة: الطهارة من الأحداث، والطهارة من الأنجاس، وستر العورة واستقبال القبلة والوقت والنية والتحريمة."
(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، ج:1، ص:58، ط:دارالفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102534
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن