1: اگر کسی شخص کو سورۃاخلاص، سورۃ فلق اور سورۃالناس یاد ہیں تو ان کو نماز کے اندر پڑھنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟اوراگر کسی شخص کو ایک یا دو سورتیں یاد ہیں اور وہ چار سنت پڑھنا چاہتا ہے تو کس طریقے سے پڑھے گا؟
۲: اگر کوئی شخص جانے یا انجانے میں آگے پیچھے سورت کر دیتا ہے تو اس نماز کے پڑھنے کا حکم کیا ہوگا ؟
۱:واضح رہے کہ قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا فرض نمازوں میں ضروری ہے ،سنن ونوافل میں نہیں، البتہ اگر پہلی رکعت میں سورۃ الفلق اور دوسری رکعت میں سورۃ الناس پڑھ لی ہو تو بقیہ تمام رکعات میں سورۃ الناس ہی پڑھنا افضل ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کو تین سورتیں (سورۂِ اخلاص،سورۂ فلق،سورۂِ ناس) ہی یاد ہوں اور اس نے تین رکعتوں میں بالترتیب یہ تین سورتیں پڑھ لی ہوں تو ایسے شخص کے لیے چوتھی رکعت میں سورۂ ناس پڑھناافضل ہے،اور اگر دو سورتیں(مثلاً سورۂ فلق اور سورۂ ناس) یاد ہوں اور اس نے دونوں رکعتوں میں بالترتیب یہ سورتیں پڑھ لی ہوں تو ایسے شخص کے لیے تیسری اور چوتھی رکعت میں بھی سورۂِ ناس پڑھناافضل ہے۔
۲: فرض نماز میں قرأت کے دوران سورتوں کی ترتیب کی رعایت رکھنا قرأت کے واجبات میں سے ہے، نماز کے واجبات میں سے نہیں ہے، لہذا فرض نماز میں جان بوجھ کر قرآن مجید کی ترتیب کے خلاف سورتیں پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، یعنی جو سورت بعد میں ہے اس کو پہلی رکعت میں پڑھنا اور جو سورت پہلے ہے اس کو دوسری رکعت میں پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، مثلاً پہلی رکعت میں سورۂ اخلاص اور دوسری رکعت میں سورۂ کافرون پڑھی گئی تو جان کر پڑھنے کی صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی، اور اگر انجانے میں یا غلطی سے ترتیب کے خلاف پڑھا تو نماز بلا کراہت درست ہو جائے گی، لیکن دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔
اورنفل نماز میں جان کر قرآن مجید کی ترتیب کے خلاف قرأت کرنا مکروہ نہیں ہے، تاہم ترتیب سے پڑھنا بہتر ہے۔
۱:الجوهرۃ النيرۃ میں ہے:
"وإذا قرأ في الأولى ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ يقرأ في الثانية ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ أيضاً."
(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج:1، ص:58، ط: المطبعة الخيرية مصر)
۲:فتاوی شامی میں ہے:
"لا بأس أن يقرأ سورة ويعيدها في الثانية، وأن يقرأ في الأولى من محل وفي الثانية من آخر ولو من سورة إن كان بينهما آيتان فأكثر. ويكره الفصل بسورة قصيرة وأن يقرأ منكوسا إلا إذا ختم فيقرأ من البقرة. وفي القنية قرأ في الأولى "الكافرون" وفي الثانية "ألم تر" أو "تبت" ثم ذكر يتم وقيل يقطع ويبدأ، ولا يكره في النفل شيء من ذلك۔ قال ابن عابدین: (قوله وأن يقرأ منكوسا) بأن يقرأ الثانية سورة أعلى مما قرأ في الأولى لأن ترتيب السور في القراءة من واجبات التلاوة... (قوله ألم تر أو تبت) أي نكس أو فصل بسورة قصيرة ط (قوله ثم ذكر يتم) أفاد أن التنكيس أو الفصل بالقصيرة إنما يكره إذا كان عن قصد، فلو سهوا فلا."
(کتاب الصلاۃ، فروع : يجب الاستماع للقراءة مطلقا، ج:1، ص:456-457، ط: سعید)
وفیه أیضا:
"قالوا يجب الترتيب في سور القرآن، فلو قرأ منكوسا أثم لكن لا يلزمه سجود السهو لأن ذلك من واجبات القراءة لا من واجبات الصلاة كما ذكره في البحر في باب السهو."
(کتاب الصلاۃ، فروع : يجب الاستماع للقراءة مطلقا، ج:1، ص:456-457، ط: سعید)
وفیه أیضا:
"(قوله بترك واجب) أي من واجبات الصلاة الأصلية لا كل واجب إذ لو ترك ترتيب السور لا يلزمه شيء مع كونه واجبا بحر."
(کتاب الصلاۃ، باب سجود السهو، ج: 2، ص:80، ط: سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإذا قرأ في ركعة سورة وفي الركعة الأخرى أو في تلك الركعة سورة فوق تلك السورة يكره وكذا إذا قرأ في ركعة آية ثم قرأ في الركعة الأخرى أو في تلك الركعة آية أخرى فوق تلك الآية وإذا جمع بين آيتين بينهما آيات أو آية واحدة في ركعة واحدة أو في ركعتين فهو على ما ذكرنا في السور كذا في المحيط. هذا كله في الفرائض وأما في السنن فلا يكره. هكذا في المحيط."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الرابع في القراءة، ج:1، ص:78-79، ط: دار الفكر)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے:
"و يكره قراءة سورة فوق التي قرأها قال ابن مسعود رضي الله عنه من قرأ القرآن منكوسا فهو منكوس...وفي الخلاصة لا يكره هذا في النفل."
(كتاب الصلاة، فصل في المكروهات: ص:189-193، ط: قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101413
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن