بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جانورخرید کر آدھ پر دینا


سوال

اگرمیں ایک بکری خریدکرکسی کوپالنے کے لیےدے دوں اور پھر ایک مدت کے بعد ہم وہ بکری یا اس کے بچے فروخت کرکے نفع آدھا آدھا تقسیم کریں توکیا ایسا کرنا جا ئز ہوگا؟اگر یہ صورت جائز نہیں تو جائز صورت کیا ہوگی؟

جواب

بکری خرید کرکسی کوپالنے کے لیےدینااور پھر ایک مدت کے بعد بکری یا اس کے بچے فروخت کرکے نفع آدھا آدھا تقسیم کرناشرکت کی یہ صورت درست نہیں ہے، ایسی صورت میں دودھ اور بچے دونوں مالک کے ہوں گے، اور پالنے والے کو اجرت دی جائے گی، یعنی عام طورپر جانور کے چارہ وغیرہ کے علاوہ جانور پالنے اور رکھنے کی جواجرت بنتی ہے، پالنے والااس اجرت کا مستحق ہوگا۔

اس کے متبادل جواز کی ممکنہ صورتیں درج ذیل ہیں:

1-   ایک صورت تو  یہی ہے کہ کرایہ پر پالنے کے لیے دے دے، اور پالنے والے کی اجرت طے کرلے، اس صورت میں دودھ، بچے وغیرہ سب مالک کے ہوں گے۔

2- زید (مثلاً)  اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھر عمرو (مثلًا) کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر زید عمرو کو وہ پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا،  اس جانورسے  جو بچے   پیدا ہوجائیں،  ہر ہر بچے میں زیداور عمرو برابر شریک ہوں گے اور اس طرح اس جانورکے دودھ  میں بھی دونوں برابر شریک ہوں گے۔ اس صورت میں زید کے لیے عمرو کے حصے کی قیمت معاف کرنا بھی ضروری نہیں ہے، اگر دوسرے شریک (عمرو) کے پاس فی الوقت پیسے نہ ہوں، تو اس کے حصے کی رقم ادھار کرلی جائے، اور جیسے اس کی گنجائش ہو وہ ادا کرتا رہے۔

3-  زید اور عمرو   دونوں پیسے ملا کرجانور خریدیں، اس میں ہر ایک اپنی مالیت کے بقدر شریک ہوگا، اوراسی طرح  مالیت کے تناسب سے دونوں اس کے دودھ ، اور ہر ہر بچے میں بھی  شریک ہوں گے، البتہ اس صورت میں اس طرح طے کرنا کہ پہلا بچہ ایک کا ہوگا اور دوسرا بچہ دوسرے کا ہوگا یہ شرعاً غلط ہے، دونوں ہر ہر بچے میں اپنے اپنے حصے کے بقدر شریک ہوں گے ۔

البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتلاءِ شدید کی صورت میں سوال  میں ذکر کردہ معاملہ میں جواز کی گنجائش کا قول اختیار کیا ہے۔ (امداد الفتاوی۔343،342/3) لہذا اگرابتلاءِ عام کی صورت میں  کسی نے یہ معاملہ کرلیا ہو تو  اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، البتہ ابتداءً ایسا معاملہ نہ کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌دفع ‌بقرة ‌إلى ‌رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما."

(کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان وما هو في معناه، 448/4، ط: دارالفکر)

خلاصۃ الفتاوی ہے :

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة."

(کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب...ومایتصل بها، 114/3، ط:قدیمی)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌ولا ‌خلاف في شركة الملك أن الزيادة فيها تكون على قدر المال حتى لو شرط الشريكان في ملك ماشية لأحدهما فضلا من أولادها وألبانها، لم تجز بالإجماع."

(كتاب الشركة،فصل في بيان شرائط جواز أنواع الشركة،62/6،ط:دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"‌بخلاف ‌الزوائد فإنها تتولد من الملك فإنما تتولد بقدر الملك."

(كتاب القسمة، 6/15، ط: دار المعرفة)

امداد الفتاوی میں ہے:

’’سوال (۲۹۴) زید نے اپنا بچھڑا بکر کو دیا کہ تو اس کو پر ورزش کےبعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کر کے ہم دونوں میں سے جو چاہے گا۔  نصف قیمت دوسرے کو دے کر اسے رکھ لے گا ، یا زید نے خالد کو ریوڑ سونپا اور معاہدہ کر لیا کہ اس کو بعد ختم سال پھر پڑ تال لیں گے، جو اس میں اضافہ ہوگا وہ با ہم تقسیم کر لیں گے، یہ دونوں عقد شرعاً جائز ہیں یا قفیز طحان کے تحت میں ہے جیسا کہ عالم عالمگیری جلد پنجم ص :۲۷۱ مطبوعہ احمدی میں ہے ۔دفع بقرة  إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والثمن بينهما أنصافاً والإجارة فاسدة.

الجواب:كتب إلى بعض الأصحاب من فتاوی ابن تیمیة كتاب الإختيارات ما نصه ولو دقع دابته أو نخله إلى من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن احمد،پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقدنا جائز ہے، کمانقل فی السوال عن عالمگیریة لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمد کے نزدیک اس میں جو از کی گنجائش ہے ، پس تحرز احوط ہے ، اور جہاں ابتلا ءشدید ہو توسع کیا جا سکتا ہے۔‘‘

(کتاب الاجارۃ ،دفع بقرہ برنصف نماء،343،342/3،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں