بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جانور میں کتنے آدمی شریک ہوسکتے ہیں ؟


سوال

 قربا نی کے جانور میں کتنے آدمی شریک ہوسکتے ہیں ؟

جواب

جانور چوں  کہ  مختلف قسم  کے ہیں  ، بعض چھوٹے ہیں اور بعض بڑے جانور ہیں،   اس لیے ہر جانور کا  الگ الگ حکم ہے ،  جس کی تفصیل یہ ہے :

۱۔  چھوٹے جانور (مثلا بھیڑ ، بکری )میں شرکت   جائز نہیں ، بلکہ   ان سے صرف  ایک آدمی کی قربانی ہو سکتی ہے ۔ 

۲ ۔ بڑے جانور ( مثلا گائے ، بیل ، بھینس ، اونٹ  وغیرہ ) میں  زیادہ سے  زیادہ سات آدمیوں تک  شریک ہوسکتے ہیں ، اس سے زیادہ  شریک نہیں ہوسکتے، تاہم اگر اس سے کم شریک ہونا چاہتے  ہیں  تو ہو سکتے ہیں ۔ 

فتاوی شامی میں ہے : 

"(فتجب) التضحية ... إلخ " [ و قال بعده:]"(شاة) بالرفع بدل من ضمير تجب أو فاعله (أو سبع بدنة) هي الإبل والبقر؛ سميت به لضخامتها، ولو لأحدهم أقل من سبعلم يجز عن أحد، وتجزي عما دون سبعة بالأولى (فجر) نصب على الظرفية (يوم النحر إلى آخر أيامه) وهي ثلاثة أفضلها أولها."

(كتاب الأضحية، ج: 6، ص: 315 - 316، ط: سعيد) 

وفیہ ایضاً: 

"يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد، وإن كانت عظيمة، والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة."

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا ، ج:  5،  304، ط:دار الفكر) 

فتح القدیر شرح الہدایہ میں ہے: 

"وذكر الزعفراني أنه ابن سبعة أشهر. والثني منها ومن المعز سنة، ومن البقر ابن سنتين، ومن الإبل ابن خمس سنين، ويدخل في البقر الجاموس لأنه من جنسه، والمولود بين الأهلي والوحشي يتبع الأم لأنها هي الأصل في التبعية، حتى إذا نزا الذئب على الشاة يضحى بالولد."

(كتاب الأضحية ، ج: 9 ، ص: 517 ، ط:دار  الفكر) 

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144511100641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں