بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جانور کی جفتی پر اجرت میں ضرورت کی وجہ سے جواز کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے؟


سوال

’’ أخذالأجرة على عسب التيس‘‘،   بہت  سارے  علماء اس کے حرمت پر فتوی دیتے ہیں ۔ لیکن جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے لوگوں کو اس کی بہت ضرورت هے ۔ بغیر اجرت کے فحل پیدا نہیں ہوتا ،عقد کے علاوہ             تکرّمًا  "فحل" کے  مالک کو دینا قبول نہیں اور  اتنے کم پیسوں میں فحل کو نہیں پالا  جاسکتا ۔ بعض علماء لوگوں کی ضرورت کو دیکھ کر یہ حیلہ کرتے ہیں ،کہ فحل کے مالک کو اجیر کہا جائے گا، جب گائے فحل کی طرف چھوڑ دیا جائے،اس صورت میں اجرت کے نام پر مزدوری لے سکتا ہے عام مزدور کی طرح، گویا یہ عام مزدور ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ نیچے  دیے گئے موارد  پر  فتوی دے دیں:

1 ۔آیا اس مسئلے کا حکم اتنی ضروریات کے باوجود ( جیسا کہ آج کل ہے ) تبدیل ہو سکتا ہے ؟

2 ۔اگر اس مسئلے کا حکم اتنے ضروریات کے باوجود تبدیل نہیں ہو تا،پھر اوپر علماءِ  کرام صریح جزئیہ رکھتے ہیں ۔آپ کے تحقیقات کے روشنی میں یہ حیلہ اعتبار رکھتا ہے یا نہیں ؟

جواب

         اجرت کے بغیر جفتی کے  لیے "فحل"    میسر نہ ہونے  سے    " عسب التیس"  کی اجرت کی حرمت میں تبدیلی نہیں  ہوسکتی۔  اور  سوال میں  جو حیلہ لکھا گیا ہے وہ درست نہیں،     البتہ    آسان صورت یہ ہے کہ علاقہ  والے مل کر مشترکہ طور پر اس ضرورت کے  لیے ایک دو فحل پال لیں اور  ان کے چارے اور  دیکھ  بال کا انتظام کریں۔

"عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: "نهى النبي صلى الله عليه و سلم عن عسب الفحل."

(أخرجه البخاري في باب عسب الفحل (2/ 797) برقم (2164)، ط.  دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت، الطبعة الثالثة :1407 = 1987)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"و عن أبي نعيم - رحمه الله - عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم و رضي عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «نهى عن عسب التيس وكسب الحجام وقفيز الطحان» والمراد بعسب التيس أخذ المال على الضراب وهو إنزاء الفحول على الإناث، وذلك حرام؛ فإنه يأخذ المال بمقابلة الماء وهو مهين لا قيمة له والعقد عليه باطل؛ لأنه يلتزم ما لا يقدر على الوفاء به وهو الإحبال فإن ذلك ليس في وسعه وهو ينبني على نشاط الفحل أيضًا."

(المبسوط للسرخسي: كتاب الإجارات (15/ 83)،ط. دار المعرفة - بيروت، سنة الطبعة: 1414هـ - 1993م)

فقط، والله اعلم


فتوی نمبر : 144301200227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں