بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جاپان سے منگوائی گاڑی آنے سے پہلے آگے فروخت کرنا


سوال

 بندہ جاپان سے گاڑیاں منگواتا ہیں ۔اور پھر اس کو پاکستان میں فروخت کرتا ہے لیکن اس کاروبار میں کچھ ایسے مسائل ہے ۔جن کے بارے میں رہنمائی کی ضرورت ہے ۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بندہ پاکستان میں بیٹھ کر نیلام کے ذریعے جاپان میں ایک گاڑی کو پسند کرتا ہے ۔پھر یہ بندہ ایک کمپنی کے ذریعے اس گاڑی کو خرید لیتا ہے ۔لیکن پیسے اسکے اکاؤنٹ سے جاتے ہيں ۔لیکن کمپنی کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ یہ گاڑی کمپنی اپنی ذمہ داری میں لیتی ہے اور کراچی تک یہ کام ایک ایجنٹ یعنی کمپنی کام کرتا ہے ۔لیکن جاپانی اکاؤنٹ جو اس مالک کا ہے،اس سے تیس فیصد یا پچاس فیصد پیسے کاٹ لیتے ہیں ۔اور باقی پیسے جب گاڑی کراچی پر اتر جائے ،پھر ادا کرنے ہوتے ہیں ۔تو اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کو راستے میں فروخت کرسکتے ہیں یعنی کراچی آنے سے پہلے پہلے فروخت ہوجاۓ،تو کیا یہ جائز ہے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ جو تیس فیصد یا پچاس فیصد اکاؤنٹ سے جاتے ہیں تو کبھی کبھی اس میں ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے ۔یعنی اکاؤنٹ سے پیسے ایک ہفتہ یا کچھ دیر بعد کاٹ لیتے ہیں ۔تو کیا اس ایک ہفتے کے درمیان ابھی تک گاڑی کے پیسے نہیں کاٹے ہوں تو کیا اس گاڑی کو اس ہفتے کے درمیان فروخت کرسکتے ہیں یا نہیں ؟

جواب

1. واضح رہے کہ منقولی اشیاء پر قبضہ کرنے سے پہلے  اس کو آگے کسی کو فروخت  کرنا جائز نہیں ہے،  اس سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ البتہ اگر خریدار نے بیچنے والی کمپنی کے علاوہ کسی تیسرے شخص ؍ کمپنی کو خریدی ہوئی چیز پر قبضہ کرکے لانے کا وکیل (ایجنٹ) بنایا ہو تو اس ایجنٹ کمپنی کا قبضہ خریدار کا قبضہ شمار ہوگا اور خریدار اسے آگے فروخت کر سکتا ہے۔

صورت مسئولہ میں آپ  کے جاپان سے گاڑی خریدنے کے بعد  ایجنٹ کمپنی کے اس گاڑی پر قبضہ کرنے سے پہلے آپ کے لیے گاڑی آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے البتہ جب ایجنٹ کمپنی جاپان میں اس گاڑی پر قبضہ کر لے تو اس کے بعد گاڑی کراچی پہنچنے سے پہلے بھی آپ کے لیے آگے بیچنا جائز ہے۔

2. اکاونٹ سے پیسے کٹے ہوں یا نہ کٹے ہوں، دونوں صورتوں کا یہی حکم ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: و من اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض ... أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(فتح القدیر، کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ص:511، ج:6، ط: دار الفکر)

 

"المبسوط للسرخسي"میں ہے:

"قبض الوكيل ‌كقبض ‌الموكل".

(كتاب الوقف، 39/12، ط: دارالمعرفة بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144510101555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں