بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جہنم کا محلِ وقوع اور سات زمینوں کی کیفیت معلوم کرنے کا حکم


سوال

 میں نے پڑھا ہے کہ  زمینیں سات ہیں، اور ساتویں زمین پر جہنم ہے، تو سات زمینیں  کس طرح  ہیں؟  کیا یہ ہماری زمین سے دور کائنات میں کسی اور جگہ  ہیں،  یا یہ زمین کی تہیں ہیں ؟  اگر یہ زمین کی تہیں ہیں تو ساتویں زمین پر جہنم کس طرح  ہے کیوں کے احادیث میں جہنم کی گہرائی کو بہت زیادہ بتایا گیا ہے؟

 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اتنی بات تو واضح ہے کہ زمینیں کل سات ہیں، اور جہنم ساتویں زمین کے نیچے  ہے،جہنم ساتویں زمین کے اوپر نہیں ہے جیسے کہ سائل نے سمجھا ہے،   اور روزِ  محشر میں اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعے اسے   لے کر میدانِ محشر میں قائم کردیں گے، البتہ زمین کی کیفت کہ وہ کس طرح واقع ہیں آیا تہہ بتہہ ہیں یا اوپر نیچے ہیں، اور دمیان میں خلا ہے یا نہیں، اور اس میں مخلوقات رہتی ہیں یا نہیں، اس بارے میں قرآن کریم ساکت ہے، اوراحادیثِ  صحیحہ  میں بھی اس کی کوئی تفصیل نہیں ملتی، اور ہمارا  دِینی یا دُنیوی کوئی فائدہ بھی اس سے وابستہ نہیں تو اس سے متعلق سوال کرنا بے جا ہے، اس سے احتراز  کرنا ضروری ہے۔

تفسیر مظہری میں ہے :

"إن جهنم تحت الأرض السابعة السفلى أخرج أبو الشيخ فى العظمة والبيهقي من طريق أبى الزعراء عن عبد الله قال الجنة فى السماء السابعة والنار فى الأرض السابعة السفلى، وأخرج البيهقي فى الدلائل ... عن عبد الله بن سلام الجنة فى السماء والنار فى الأرض، وأخرج ابن جرير فى تفسيره عن معاذ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم من أين يجاء بجهنم يوم القيمة قال لجاء بها ‌من ‌الأرض ‌السابعة ‌بها ‌ألف ‌زمام لكل زمام سبعون ألف ملك."

(التفسير المظهري، سورة المطففين، (10/ 220 - 221)، ط: مكتبة الرشيدية - الباكستان)

مستدرک حاکم میں ہے: 

"حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا محمد بن غالب، ثنا عفان، ومحمد بن كثير، قالا: ثنا مهدي بن ميمون، ثنا محمد بن عبد الله بن أبي يعقوب، عن بشر بن شغاف، عن عبد الله بن سلام، قال: وكنا جلوسا في المسجد يوم الجمعة، فقال: «إن أعظم أيام الدنيا يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه تقوم الساعة، وإن أكرم خليقة الله على الله أبو القاسم صلى الله عليه وسلم» قال: قلت: يرحمك الله فأين الملائكة؟ قال: فنظر إلي وضحك وقال: " يا ابن أخي هل تدري ما الملائكة؟ إنما الملائكة خلق كخلق السماء والأرض والرياح والسحاب وسائر الخلق الذي لا يعصي الله شيئا، ‌وإن ‌الجنة ‌في ‌السماء، ‌وإن ‌النار ‌في ‌الأرض، فإذا كان يوم القيامة بعث الله الخليقة أمة أمة ونبيا نبيا حتى يكون أحمد وأمته آخر الأمم مركزا، قال: فيقوم فيتبعه أمته برها وفاجرها، ثم يوضع جسر جهنم فيأخذون الجسر فيطمس الله أبصار أعدائه فيتهافتون فيها من شمال ويمين وينجو النبي صلى الله عليه وسلم والصالحون معه فتتلقاهم الملائكة فتوريهم منازلهم من الجنة على يمينك على يسارك حتى ينتهي إلى ربه عز وجل فيلقى له كرسي عن يمين الله عز وجل ثم ينادي مناد: أين عيسى وأمته؟ فيقوم فيتبعه أمته برها وفاجرها فيأخذون الجسر فيطمس الله أبصار أعدائه فيتهافتون فيها من شمال ويمين، وينجو النبي صلى الله عليه وسلم والصالحون معه فتتلقاهم الملائكة فتوريهم منازلهم في الجنة على يمينك على يسارك حتى ينتهي إلى ربه فيلقى له كرسي من الجانب الآخر، قال: ثم يتبعهم الأنبياء والأمم حتى يكون آخرهم نوح رحم الله نوحا "هذا حديث صحيح الإسناد."

(المستدرك على الصحيحين، كتاب الأهوال، (4/ 612)، ط: دار الكتب العلمية)

قرآنِ مجید میں ہے:

﴿اللَّهُ الَّذِي ‌خَلَقَ ‌سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ [الطلاق: 12]

 ترجمہ: ”اللہ وہ ہے جس نے بنائے سات آسمان، اور زمین بھی اتنی ہی۔“(از معارف القرآن)

 معارف القرآن میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ  آیتِ بالا کے ذیل میں فرماتے ہیں:

”اس آیت سے اتنی بات تو واضح طور پر ثابت ہے کہ جس طرح آسمان سات ہیں ایسی ہی زمین بھی سات ہیں، پھر یہ سات زمینیں کہاں کہاں اور کس وضع و صورت میں ہیں، اوپر نیچے طبقات کی صورت میں تہ بر تہ ہیں ، یا ہر زمین کا مقام الگ الگ ہے،اگر اوپر نیچے طبقات ہیں تو کیا جس طرح سات  آسمانوں میں سے ہر دو آسمان کے درمیان بڑا فاصلہ ہے،اور ہر آسمان میں الگ الگ فرشتے آباد ہیں اسی طرح ایک زمین اور دوسری زمین کے درمیان بھی فاصلہ اور ہوا فضا وغیرہ ہیں، اور اس میں کوئی مخلوق آباد ہے یا یہ طبقات زمین ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں، قرآن مجید اس سے ساکت ہے اور روایاتِ حدیث جو اس بارے میں آئی ہیں ان میں اکثر احادیث میں ائمۂ حدیث کا اختلاف ہے، بعض نے ان کو صحیح وثابت قرار دیا ہے، بعض نے موضوع ومنگھڑت تک کہہ دیا ہے ،اور عقلا ًیہ سب صورتیں ممکن ہیں، اور ہماری کوئی دِینی یا دُنیوی ضرورت اس کی تحقیق پر موقوف نہیں، نہ ہم سے قبر میں یا حشر مین اس کا سوال ہوگا کہ ہم ان سات زمینوں کی وضع وصورت اور محلِ وقوع اور اس میں بسنے والی مخلوقات کی تحقیق کریں، اس لیے اسلم صورت یہ ہے کہ بس اس پر ایمان لائیں، اور یقین کریں کہ زمینیں بھی آسمانوں کی طرح سات ہی ہیں، اور سب کو اللہ تعالی نے اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا فرمایا ہے، اتنی ہی بات قرآن نے بیان کی ہے، جس کو قرآن نے بیان  کرنا ضروری نہیں سمجھا ہم بھی اس کی فکر وتحقیق میں کیوں پڑیں، حضرات سلفِ صالحین کا ایسی صورتوں میں یہی طرز عمل رہا ہے۔“

(معارف القرآن، مفتی محمد شفیعؒ، سورۃ طلاق، 8/ 494 - 495، مکتبۂ معارف القرآن، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں