جھینگا حلال ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ جھینگے کی حلت اورحرمت کی بنیاد اس بات پرہےکہ یہ مچھلی ہےیا نہیں؟ جولوگ اس کو مچھلی قراردیتے ہیں وہ اس کی حلت کے قائل ہیں، اورجولوگ اس کو مچھلی قرارنہیں دیتے وہ اس کی حلت کے قائل نہیں ہیں۔ ماہرینِ علم لغت اورعلمِ حیوانات کے ماہرین اس کو مچھلی قراردیتے ہیں اوراکثرعلماء کی رائے بھی یہی ہے،ہمارے دارالافتاء کا بھی یہی موقف ہے کہ جھینگا کھاناحلال ہے۔
باقی اگر کسی کو طبعی طور پر جھینگے سے کراہت ہوتی ہےتو وہ جھینگا نہ کھائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور جو لوگ جھینگا نہیں کھاتے ہیں انہیں اس کے کھانے پر مجبور نہ کیا جائے، اور جو لوگ کھاتے ہیں انہیں مطعون نہ کیا جائے۔
حیاۃ الحیوان میں ہے:
"هو سمك صغير جدا أحمر.
الخواص:
إن طرحت رجل الروبيان في شراب من يحب الشراب ابغضه، ورقبته ينحر بها فيسقط الجنين وإذا دق الروبيان وهو طري، وضمد به موضع الشوك أو السهم الغائص في البدن أخرجه بسهولة. وإن سلق مع الحمص الأسود وضمد به السرة أخرج حب القرع. وإن جفف وسحق واكتحل به صاحب الغشاوة نفعه. وإن سحق مع سكنجبين وشرب أخرج حب القرع من الجوف. قاله عبد الملك بن زه."
(ج:1،ص:514،ط،دار الكتب العلمية)
امداد الفتاوی میں ہے:
"اس پر تو سب کااتفاق ہے کہ سمک بجمیع انواعہ حلال ہے ،اب صر ف شبہ اس میں ہے کہ یہ سمک ہے یانہیں ،سو سمک کے کچھ خواص لازمہ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہوئے کہ ان کے انتفاءسے سمکیت منتفی ہوجائے ،اب مدار صرف عدول مبصرین کی معر فت پر رہ گیاہے اور اگر مبصرین میں اختلاف ہوگا تو حکم میں بھی اختلاف ہوگا،چناں چہ اسی وجہ سے جریث میں امام محمد ؒمخالف ہیں ،کمانقلہ الشامی ،اس وقت میرے پاس حیوۃ الحیوان دمیری کی جوکہ ماہیات ِحیوانات سے بھی باحث ہے، موجود ہے، اس میں تصریح ہے"الروبیات ہوسمک صغیر جداً "اور اس کے مقبول نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ،پس یہ مقتضی حلت کو ہے ،مخزن جوکہ نیز باحث ہے ماہیات ادویہ سے اس میں گواس کو ماہی سے تعبیر کرنا حجت نہیں مگر آگے اس کو حلال کہنا صاف قرینہ ہے کہ اس نے اس کو ماہیت ِماہی میں داخل کیا ہے،پس اس سے اور بھی تائیدہوگئی ،بہرحال احقر کواس وقت تو اس کے سمک ہونے میں بالکل اطمینان ہے."
(کتاب الحظروالاباحۃ،کھانے ،پینے کی حلال وحرام ومکروہ مباح چیزوں کا بیان ،ج:4،ص:103،دارالعلوم کراچی)
تکملۃ فتح الملہم میں ہے:
"وأما عند الحنفية فيتوقف جوازه علي أنه سمك أو لا ...... فذکر غير واحد من أهل اللغة أنه نوع من السمك ..... وأفتي غير واحد من الحنفية بجوازه بناء على ذلك.
فلو أخذنا بقول خبراء علم الحيوان فإنه ليس سمكا، فلا يجوز على أصل الحنفية، ولكن السؤال هنا: هل المعتبر في هذا الباب التدقيق العلمي في كونه سمكا؟ أو يعتبر العرف المتفاهم بين الناس؟ ولا شك أن عند اختلاف العرف يعتبر عرف أهل العرب، لأن استثناء السمك من ميتات البحر إنما وقع باللغة العربية ..... فمن أخذ بحقيقة الإربيان حسب علم الحيوان قال بمنع أكله عند الحنفية، ومن أخذ بعرف أهل العرب قال بجوازه، وربما يرجح هذاالقول بأن المعهود من الشريعة في أمثال هذه المسائل الرجوع إلی العرف المتفاهم بين الناس، دون التدقيق في الأبحاث النظرية، فلا ينبغي التشديد في مسألة الإربيان عند الإفتاء، ولا سيما في حالة كون المسألة مجتهدا فيها من أصلها، ولا شك أنه حلال عند الأئمة الثلاثة، وإن اختلاف الفقهاء يورث التخفيف كما تقرر في محله، غير أن الاجتناب عن أكله أحوط وأولى وأحرى".
(کتاب الصید والذبائح، باب إباحة ميتات البحر، ج:3، ص:427، ط:دار إحياء التراث العربی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100699
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن