بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جہاد کے لیے دعا کرنے کا حکم


سوال

کیا جہاد شروع ہونے کے لیے دعا کر سکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جہاد اعلاء  کلمۃ اللہ کے لیےکفار  سے ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کا سامنا کرنے  کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے، لہذا اللہ سے یہ دعا نہ مانگی جائے، بل کہ اللہ سے عافیت  کی دعا مانگی جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"2966 - ثم قام في الناس قال: أيها الناس ‌لا ‌تتمنوا ‌لقاء ‌العدو وسلوا الله العافية فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف. ثم قال: اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم."

(كتاب الجهاد والسير، باب: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا لم يقاتل أول النهار أخر القتال حتى تزول الشمس، ج:4، ص:51، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ: پھر حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے لکھا ) زوال کے بعد نبی صل اہل علم نے تقریر فرمائی ، ارشاد فرمایا: لوگو! دشمن سے ملاقات کی تمنا مت کرو، اللہ سے عافیت طلب کرو، یعنی بلاء کی آرزو کبھی نہیں کرنی چاہئے ، ہمیشہ عافیت طلب کرنی چاہئے ، پھر جب تمہاری ان سے ملاقات ہو تو صبر کرویعنی جب بلاء سر پر آپڑے تو ہمت سے اس کا مقابلہ کرو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ ! قرآن کے نازل کرنے والے! بادلوں کو چلانے والے ! جتھوں کو شکست دینے والے! دشمن کو شکست دیجئے! اور ہماری ان کے خلاف مدد فرمائیے!۔(تحفۃ القاری)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں