ہمارے علاقہ میں صبح کے وقت گیس نہیں آتی اور بالفرض آتی ہے توپریشر اس قدر کم ہوتاہےکہ بعض اوقات ایک کپ چائے بنانا بھی انتہائی مشکل امر ہوتاہے،چنانچہ میں ایک کپ چائے بنانے کے لئے (بعض اوقات دانستہ بھی کہ گیس کا بل کم آئے ) کاغذات جلاکر چائے بنالیتاہوں،ان کاغذات پر جبّار ،قہّار ،علیم جیسے الفاظ بھی تحریر ہوتے ہیں جن پر اعراب نہیں ہوتے اور بعض پر ہوتے بھی ہیں، استعمال کے بعد میں ان جلے ہوئے کاغذات کی راکھ کسی شاپر میں ڈا کر مقدس اوراق والے ڈبے میں ڈال دیتا ہوں کہ بےادبی نہ ہو، شریعت کی روشنی میں میرا یہ عمل کیسا ہے؟میں گناہگار تو نہیں ہوتا؟
جن کاغذات میں اللہ جل شانہ یا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ناموں میں سے کوئی نام لکھا ہو،ان کو کھانا اور چائے بنانے کے لئے جلانا بے ادبی ہے، اس لئے مذکورہ عمل سے اجتناب ضروری ہے، البتہ اگر اللہ جل شانہ اورانبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے ناموں کو ایسے کاغذات سے پانی وغیرہ کے ذریعہ مٹا دیا جائے یا الگ کردیا جائے (اور پھر ان کو کپڑے میں لپیٹ کر کسی پاک جگہ میں دفن کردیں یا سمند ر برد کردیں ) اور باقی کاغذ کو جلانے کے لیےاستعمال کیا جائے تو اس کی اجازت ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’الکتب التي لاینتفع بها یمحی فيها اسم اللّٰه وملائکته ورسله ویحرق الباقي، ولابأس بأن تلقی في ماء جار کما هي، أوتدفن وهو أحسن کما في الأنبیاء ... وکذا جمیع الکتب إذا بلیت وخرجت عن الانتفاع بها، یعنی أن الدفن لیس فیه إخلال بالتعظیم؛ لأن أفضل الناس یدفنون. ‘‘
(كتاب الحظر والإباحة، 6 /422، ط:سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ويكره أن يجعل شيئا في كاغدة فيها اسم الله تعالى كانت الكتابة على ظاهرها أو باطنها، بخلاف الكيس عليه اسم الله تعالى فإنه لا يكره، كذا في الملتقط.
وإذا كتب اسم الله تعالى على كاغد ووضع تحت طنفسة يجلسون عليها فقد قيل: يكره، وقيل: لا يكره، وقال: ألا ترى أنه لو وضع في البيت لا بأس بالنوم على سطحه كذا هاهنا، كذا في المحيط.
ولا يجوز لف شيء في كاغد فيه مكتوب من الفقه، وفي الكلام الأولى أن لا يفعل، وفي كتب الطب يجوز، ولو كان فيه اسم الله تعالى أو اسم النبي - صلى الله عليه وآله وسلم -، ويجوز محوه ليلف فيه شيء، كذا في القنية.
ولو محا لوحا كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز، وقد ورد النهي عن محو اسم الله تعالى بالبزاق، كذا في الغرائب.
ومحو بعض الكتابة بالريق يجوز، كذا في القنية.
سئل أبو حامد عن الكواغد من الأخبار ومن التعليقات يستعملها الوراقون في الغلاف فقال: إن كان في المصحف أو في كتب الفقه أو في التفسير فلا بأس به، وإن كان في كتب الأدب والنجوم يكره لهم ذلك، كذا في الغرائب."
(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،5/ 322،ط: دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608101693
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن