اگر کسی غیر محرم لڑکی سے محبت ہو جائے اور نیت شادی کی ہو تو بات کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اپنی خالہ کی بیٹی کی بیٹی سے پیار کرنا جائز ہے؟
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے مردوں اور عورتوں کو نظر کی حفاظت کرنے کاحکم دیا ہے،اور نامحرموں کو دیکھنے سے منع کیا ہے ؛ لہذاکسی مرد یا عورت کا نامحرم مردیا عورت کو بغیر کسی ضرورت کے دیکھنا یا اس سے بات چیت کرنا اور بے تکلفی اختیار کرنا شرعاً ناجائز ہے ، نیز یہ گناہ آگے بڑھ کر مزید خرابیوں کا باعث بنتا ہے ۔البتہ اگر کسی عورت سے نکاح کا ارادہ ہو تو اس عورت کے کسی مربی کے سامنے اسے دیکھنا اور مختصر بات چیت کرنا جائز ہے۔لیکن جب رشتہ طے ہو جائےتو چوں کہ اس کے بعد ضرورت پوری ہو جاتی ہے ؛لہذااب دیکھنے اوربات چیت کا سلسلہ جاری رکھنا جائز نہیں۔اس لیے کہ مخطوبہ بھی نکاح سے پہلے اجنبیہ ہے اور اجنبیہ سے بات کرنا ناجائز ہے ۔
اور خالہ کی بیٹی کی بیٹی بھی اجنبیہ اور غیر محرم ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن المغيرة بن شعبة قال خطبت امرأة فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل نظرت إليها؟قلت: لا قال: فانظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما. رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي."
(کتاب النکاح،باب النظر إلى المخطوبة وبيان العورات، ج:2، ص:932، المكتب الإسلامي - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے :
"وفي الشرنبلالية معزيا للجوهرة ولا يكلم الاجنبية إلا عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها، وإلا لا انتهى."
(کتاب الحظر والاباحۃ، ج:6، ص:369، ط سعید)
وفیہ ایضاً:
"أراد أن يتزوج امرأة فلا بأس أن ينظر إليها، وإن خاف أن يشتهيها لقوله عليه الصلاة والسلام للمغيرة بن شعبة حين خطب امرأة :انظر إليها فإنه أحرى أن يؤدم بينكما رواه الترمذي والنسائي وغيرهما ولأن المقصود إقامة السنة لا قضاء الشهوة."
(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی النظر والمس، ج:6، ص:370، ط سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101741
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن