اگر کوئی ادارہ طلبہ سے فیس وصول کرتا ہے اور فیس لیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ فیس اس لیے لی جاتی ہے کہ کھانا پینا اور پڑھائی کے اخراجات ہیں، تو کیا ایسے ادارے میں زکاۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
زکاۃ کی ادئیگی کے لیے ضروری ہے کہ مستحقِ زکات شخص کو مالک بناکر دی جائے ،اگر مذکورہ ادارے میں مستحقِ زکات طلبہ پر زکات خرچ کرنے کا مصرف ہے،مثلاً انہیں امدادی وظائف جاری کیے جاتے ہوں ، تو مستحقینِ زکات طلبہ کے لیے اس مدرسے میں زکات دے سکتے ہیں،باقی اگر مذکورہ ادارہ طلبہ کو زکات کی رقم کا مالک بناکر ان سے کھانے ،پینے اور رہائش وغیرہ کے اخراجات کی مد میں فیس وصول کرتا ہے تو اس میں شرعًا کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
و في الدر المختار :
"باب المصرف
أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."
(كتاب الزكاة .باب المصرف. 2/ 339ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144207200275
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن