بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

جس ادارے میں طلبہ سے فیس وصول کی جاتی ہو اس میں زکاۃ دینا


سوال

اگر کوئی ادارہ  طلبہ سے فیس وصول کرتا ہے اور  فیس لیتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ فیس اس لیے  لی جاتی ہے کہ کھانا پینا اور پڑھائی کے اخراجات ہیں، تو کیا ایسے ادارے میں زکاۃ دی جا سکتی ہے یا نہیں؟

جواب

زکاۃ کی ادئیگی کے لیے ضروری ہے کہ مستحقِ  زکات شخص کو مالک بناکر دی جائے ،اگر مذکورہ ادارے  میں مستحقِ زکات  طلبہ پر زکات  خرچ کرنے کا مصرف ہے،مثلاً انہیں امدادی وظائف جاری کیے جاتے ہوں ، تو مستحقینِ زکات  طلبہ کے لیے اس مدرسے میں زکات  دے سکتے ہیں،باقی  اگر مذکورہ  ادارہ   طلبہ کو زکات  کی رقم کا مالک بناکر ان سے کھانے ،پینے اور  رہائش وغیرہ کے اخراجات کی مد میں فیس وصول کرتا ہے تو اس میں شرعًا کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔

و في الدر المختار :

"باب المصرف

أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة."

(كتاب الزكاة .باب المصرف. 2/ 339ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144207200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں