بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جس جانور کے دانت مکمل ہوں اس کی قربانی کا حکم


سوال

ہم نے ایک سال پہلے ایک بچھڑا خریدا تھا،  خریدتے وقت اس کی عمر معلوم نہیں تھی،  لیکن اس کا وزن تقریبا پانچ من ہے اور دانت بھی مکمل آچکے ہیں، جس سے بظاہر یہ معلوم چلتا ہے کہ اس کی عمر 24 مہینے ہوچکی ہوگی،  کیا اس جانور کی قربانی جائز ہے ؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں قربانی کے جانور کی قربانی درست ہونے کے لیے ان کے لیے ایک خاص عمر کی تعیین ہے، یعنی بکرا ، بکری  وغیرہ کی عمر ایک سال، گائے، بھینس وغیرہ کی دو سال، اور اونٹ ، اونٹنی کی عمر پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے، دنبہ اور بھیڑ  وغیرہ  اگر چھ ماہ  کا ہوجائے، لیکن وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔

  اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ ان جانوروں کی اتنی عمریں ہوگئی ہیں (مثلاً: جانور کو اپنے سامنے پلتا بڑھتادیکھا ہو اور ان کی عمر بھی معلوم ہو) تو ان کی قربانی درست ہے، پکے دانت نکلنا ضروری نہیں،  بلکہ مدت پوری ہونا شرط ہے،  تاہم آج کل چوں کہ فساد کا غلبہ ہے، اس لیے صرف بیوپاروی کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا ، ہاں زیادہ عمر کا آنا  ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں اگر جانور کی عمر یقینی طور پر  معلوم نہیں ہے تو پھر  احتیاطاً دانت آنے پر ہی قربانی درست ہونے کا حکم لگایا جائے گااور جب جانور کے دانت بھی مکمل طور پر آ چکے ہیں توعلامت ہے کہ   جانور کی عمر پوری ہوچکی ہے، اس لیے اس جانور کی قربانی درست ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(وأما سنه) فلايجوز شيء مما ذكرنا من الإبل والبقر والغنم عن الأضحية إلا الثني من كل جنس وإلا الجذع من الضأن خاصة إذا كان عظيما، وأما معاني هذه الأسماء فقد ذكر القدوري أن الفقهاء قالوا: الجذع من الغنم ابن ستة أشهر والثني ابن سنة والجذع من البقر ابن سنة والثني منه ابن سنتين والجذع من الإبل ابن أربع سنين والثني ابن خمس، وتقدير هذه الأسنان بما قلنا يمنع النقصان، ولايمنع الزيادة، حتى لو ضحى بأقل من ذلك شيئا لا يجوز، ولو ضحى بأكثر من ذلك شيئًا يجوز ويكون أفضل، ولايجوز في الأضحية حمل ولا جدي ولا عجول ولا فصيل."

(كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، ج:5، ص:297، ط:دار الفكر) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے

 "(وعن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاتذبحوا إلا مسنة) : وهي الكبيرة بالسن، فمن الإبل التي تمت لها خمس سنين ودخلت في السادسة، ومن البقر التي تمت لها سنتان ودخلت في الثالثة، ومن الضأن والمعز ما تمت لها سنة، كذا قاله ابن الملك. (إلا أن يعسر) أي: يصعب. (عليكم) أي: ذبحها، بأن لا تجدوها قاله ابن الملك. والظاهر أي: يعسر عليكم أداء ثمنها. قال ابن الملك: قوله: (إلا أن يعسر) بهذا قال بعض الفقهاء: الجذعة لا تجزئ في الأضحية إذا كان قادرا على مسنة، ومن قال بجوازه حمل الحديث على الاستحباب  وهو المعتمد في المذهب."

"ويؤيده حديث "نعمت الأضحية الجذعة من الضأن" وروى أحمد وغيره: "ضحوا بالجذعة من الضأن فإنه جائز" . (فذبحوا جذعة) : بفتحتين. (من الضأن) : بالهمز ويبدل ويحرك خلاف المعز من الغنم، وهو ما يكون قبل السنة قاله ابن الملك، لكن يقيد بأنها تكون بنت ستة أشهر تشبه ما لها سنة لعظم جثتها. وفي النهاية: الجذع من أسنان الدواب، وهو ما يكون منها شابا فهو من الإبل ما دخل في المسنة، ومن البقر ما دخل في الثانية، ومن الضأن ما تمت له سنة، وقيل: أقل منها، وفي شرح السنة: اتفقوا على أنه لا يجوز من الإبل والبقر إلا الثني، وهو من الإبل ما استكمل خمس سنين، ومن البقر والمعز ما استكمل سنتين وطعن في الثالثة، وأما الجذع من الضأن فاختلفوا فيه، فذهب أكثر أهل العلم من الصحابة ومن بعدهم إلى جوازه، غير أن بعضهم يشترط أن يكون عظيما، وقال الزهري: لايجوز من الضأن إلا الثني فصاعدا كالإبل والبقر، والأول أصح لما ورد: "نعمت الأضحية الجذعة من الضأن."

( كتاب الصلاة، باب في الأضحية، 3 / 1079، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144511102416

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں