میرا وضو بار بار ٹوٹ جاتا ہے، یہاں تک کہ دو یا ایک منٹ بھی نہیں رہتا، پھر میں اسی طرح سے نماز ادا کرتا ہوں، کیا میری نماز ہوجاتی ہے؟ نماز کے دوران بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کو پیشاب یا ہوا جاری رہنے کی ایسی بیماری ہے کہ کسی فرض نماز کا مکمل وقت اس طرح گزرا ہے کہ پورے وقت میں اتنا وقت بھی پاک نہیں رہ پایا کہ اس میں وضو کرکے نماز ادا کرسکے تو یہ شخص معذور ہے، اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ نجاست کو روکنے کا جتنا انتظام ہو سکتا ہے وہ کرے، اور ہر نماز کے وقت کے لیے وضو کرے پھر اس وقت کے اندر جتنی نمازیں (فرض ، سنت، نفل) ادا کرنا چاہے ادا کر سکتا ہے، اور جب وقت نماز کا وقت ختم ہوجائے (فجر کا وقت سورج طلوع ہونے سے، ظہر کا وقت عصر ہونے سے، عصر کا وقت مغرب ہونے سے، مغرب کا وقت عشاء ہونے سے اور عشاء کا وقت فجر طلوع ہونے سے اور اگر سورج طلوع ہونے کے بعد وضو کیا تو ظہر کا وقت ختم ہونے سے) تو پھر دوبارہ وضو کرے، اگلی نماز کا وقت ختم ہونے تک، لیکن یاد رہے کہ یہ حکم صرف اس نجاست کا ہے جس کا عذر لاحق ہے (یعنی جو مسلسل نکلتی رہتی ہے)، لہٰذا اگر وقت کے دوران اس کے علاوہ کسی اور نجاست سے حدث لاحق ہوگیا (مثلا: عذر ہوا نکلنے کا ہے اور پیشاب یا پاخانہ کر لیا، یا پیشاب کا عذر ہے اور ہوا نکل گئی، یا زخم سے خون نکل گیا وغیرہ) تو اس صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا، دوبارہ کرنا پڑے گا۔
اگر نجاست سے کپڑے بھی ناپاک ہوجاتے ہیں تو اگر یہ امکان ہو کہ کپڑا دھویا تو نماز پوری ہونے سے پہلے ہی دوبارہ ناپاک ہوجا ئےگا تو پھر کپڑے دھونا ضروری نہیں، لیکن اگر نماز مکمل ہونے تک کپڑا پاک رہ سکتا ہے تو پھر کپڑا دھونا ضروری ہے۔یابدلناہوگا۔
اسی طرح نماز میں اگر یہ ممکن ہے کہ بیٹھ کر یا اشارہ سے نماز پڑھی جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گا تو پھر یہ شخص معذور نہیں ہوگا، بلکہ لازم ہے کہ اس طرح نماز پڑھے جس سے وضو نہ ٹوٹے، لیکن اگر کسی بھی طرح وضو روکا نہیں جا سکتا تو پھر معذور والے احکام جاری ہوں گے۔
سائل صرف اسی پر اکتفا نہ کرے، بلکہ علاج بھی کروائے، پھر اگر خود بخود یا علاج کے بعد کسی بھی فرض نماز کا پورا وقت اس عذر کے بغیر گزر جائے تو سائل شرعی معذور نہیں رہے گا، پھر اگر اسے پورے وقت میں سے اتنا وقت مل جاتا ہے کہ اس میں وضو کر کے نما زادا کی جا سکتی ہے تو پھر وضو کرنا ضروری ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و صاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع و لو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ ويصلي فيه خاليا عن الحدث (ولو حكما) لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة ....(وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما فيلِدُلُوكِ الشَّمْسِ [الإسراء: 78] (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلا) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته. (فروع) يجب رد عذره أو تقليله بقدر قدرته ولو بصلاته موميا.
(قوله: أو تقليله) أي: إن لم يمكنه رده بالكلية (قوله: ولو بصلاته مومئا) أي: كما إذا سال عند السجود ولم يسل بدونه فيومئ قائما أو قاعدا، وكذا لو سال عند القيام يصلي قاعدا، بخلاف من لو استلقى لم يسل فإنه لا يصلي مستلقيا. اهـ. بركوية. (قوله: وبرده لا يبقى ذا عذر) قال في البحر: ومتى قدر المعذور على رد السيلان برباط أو حشو أو كان لو جلس لا يسيل ولو قام سال وجب رده، وخرج برده عن أن يكون صاحب عذر، ويجب أن يصلي جالسا بإيماء إن سال بالميلان؛ لأن ترك السجود أهون من الصلاة مع الحدث. اهـ ."
(کتاب الطھارۃ، باب الحیض، مطلب فی أحكام المعذور، 1/ 305، ط:سعید)
"البحر الرائق"میں ہے:
"(قوله ويبطل بخروجه فقط) أي ولا يبطل بدخوله......وأفاد أنه لو توضأ بعد طلوع الشمس ولو لعيد أو ضحى على الصحيح فلا تنتقض إلا بخروج وقت الظهر لا بدخوله خلافا لأبي يوسف وأنه لو توضأ قبل الطلوع انتقض بالطلوع اتفاقا خلافا لزفر وأنه لو توضأ في وقت الظهر للعصر بطل بخروج وقت الظهر على الصحيح فالحاصل أنه ينتقض بالخروج لا بالدخول عندهما وعند أبي يوسف بأيهما وجد وعند زفر بالدخول فقط"
(کتاب الطھارۃ، باب الحیض، حیض المبتدأة ونفاسها، 1/ 375، ط:دار الكتب العلمية بيروت)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح. هكذا في المحيط في نواقض الوضوء حتى لو توضأ المعذور لصلاة العيد له أن يصلي الظهر به عند أبي حنيفة ومحمد وهو الصحيح؛ لأنها بمنزلة صلاة الضحى."
(کتاب الطھارۃ، الباب السادس، الفصل الرابع في أحكام الحيض و النفاس والاستحاضة، 1/ 46، ط:دار الکتب العلمية بيروت)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144511100224
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن