بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جو چیز نچوڑی نہ جاسکتی ہو اسے پاک کرنے کا طریقہ


سوال

جو چیز نچوڑی نہ جاسکتی ہو، اور  نجاست جذب کرلے تو اس کو تین بار دھویا جائے اور قطرات بند ہونے تک رکھا جائے، یا اس کو بہتے نل کے نیچے رکھ کر نجاست کا اثر زائل ہونے تک دھویا جائے، اب اگر ہم کسی ایسی ناپاک خشک چیز(جوتا،کارپٹ،قالین وغیرہ) کو زمین پر رکھ کر اوپر پائپ (جو   پانی کی ایک بڑی  ٹنکی کے ساتھ لگا ہوا ہے اس)سے ڈھیر سارا پانی پریشر کے ساتھ ڈالیں، اور پائپ سے نکلنے والی دھار کو نجس چیز کے اوپر حرکت دیتے رہیں، یہاں تک کہ ناپاکی  زائل ہونے کا غالب گمان ہو جائے ،کیا یہ (پائپ سے  پریشر کے ساتھ پانی ڈالنے اور نجس چیز کے اوپر پانی کی دھار کو حرکت دیتے ہوئے ناپاکی کے زائل ہونے تک دھونے کا )طریقہ  بہتے پانی کے حکم میں آئے گا، اور اس طرح دھونے سے نجس چیز پاک ہو جاتی ہے؟

جواب

اگر ایسی کسی چیز کو نجاست لگ جائے جو نچوڑی نہ جا سکتی ہو (جیسے دری، قالین، جوتا وغیرہ)، اور اس میں نجاست جذب ہونے کا بھی امکان ہو، اور اسے ایسی نجاست لگ جائے جو نظر نہ آتی ہو(جیسے پیشاب ناپاک پانی وغیرہ) تو اس کی پاکی میں یہ تفصیل ہے کہ:

اگر یہ معلوم ہو کہ نجاست اس کے اوپر ہی لگی ہوئی ہے، اندر جذب نہیں ہوئی پھر تو اس نجاست کو صاف کر دینے سے ہی وہ چیز پاک ہو جائے گی۔

اور اگر نجاست اندر چلی گئی ہو، لیکن زیادہ اندر نہ گئی ہو تو اس پر اتنا پانی بہا دیا جائے جس سے نجاست اندر سے نکل کر صاف ہو جائے تو اس سے وہ چیز پاک ہو جائے گی۔

اور اگر نجاست زیادہ اندر چلی جائے تو پھر اس کو تین دفعہ اس طرح دھویا جائے کہ ہر مرتبہ دھو کر اسے اتنی دیر چھوڑ دیا جائے کہ وہ خشک ہو جائے، اور پانی ٹپکنا بند ہوجائے، پھر دوبارہ اور سہ بارہ  اسی طرح دھویا جائےتو پاکی حاصل ہو جائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها كما مر، وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقا بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس هو المختار .

(قوله: بتثليث جفاف) أي: جفاف كل غسلة من الغسلات الثلاث وهذا شرط في غير البدن ونحوه، أما فيه فيقوم مقامه توالي الغسل ثلاثا قال في الحلية: والأظهر أن كلا من التوالي والجفاف ليس بشرط فيه، وقد صرح به في النوازل وفي الذخيرة ما يوافقه. اهـ. وأقره في البحر......(قوله: أي: انقطاع تقاطر) زاد القهستاني وذهاب النداوة. وفي التتارخانية: حد التجفيف أن يصير بحال لا تبتل منه اليد، ولا يشترط صيرورته يابسا جدا. اهـ........(قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط أفاده في شرح المنية. (قوله: مما يتشرب النجاسة إلخ) حاصله كما في البدائع أن المتنجس إما أن لا يتشرب فيه أجزاء النجاسة أصلا كالأواني المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتيق، أو يتشرب فيه قليلا كالبدن والخف والنعل أو يتشرب كثيرا؛ ففي الأول طهارته بزوال عين النجاسة المرئية أو بالعدد على ما مر؛ وفي الثاني كذلك؛ لأن الماء يستخرج ذلك القليل فيحكم بطهارته، وأما في الثالث فإن كان مما يمكن عصره كالثياب فطهارته بالغسل والعصر إلى زوال المرئية وفي غيرها بتثليثهما، وإن كان مما لا ينعصر كالحصير المتخذ من البردي ونحوه إن علم أنه لم يتشرب فيه بل أصاب ظاهره يطهر بإزالة العين أو بالغسل ثلاثا بلا عصر، وإن علم تشربه كالخزف الجديد والجلد المدبوغ بدهن نجس والحنطة المنتفخة بالنجس؛ فعند محمد لا يطهر أبدا، وعند أبي يوسف ينقع في الماء ثلاثا ويجفف كل مرة، والأول أقيس، والثاني أوسع اهـ وبه يفتى درر.

قال في الفتح: وينبغي تقييد الخزف العتيق بما إذا تنجس رطبا وإلا فهو كالجديد؛ لأنه يشاهد اجتذابه اهـ وقالوا في البساط النجس إذا جعل في نهر ليلة طهر قال في البحر: والتقييد بالليلة لقطع الوسوسة وإلا فالمذكور في المحيط أنه إذا أجرى عليه الماء إلى أن يتوهم زوالها طهر؛ لأن إجراء الماء يقوم مقام العصر اهـ ولم يقيده بالليلة. اهـ. ومثله في الدر المنتقى عن الشمني وابن الكمال، ولو موه الحديد بالماء النجس يموه بالطاهر ثلاثا فيطهر خلافا لمحمد، فعنده لا يطهر أبدا وهذا في الحمل في الصلاة أما لو غسل ثلاثا ثم قطع به نحو بطيخ أو وقع في ماء قليل لا ينجسه فالغسل يطهر ظاهره إجماعا، وتمامه في شرح المنية. (قوله: وإلا فبقلعها) المناسب فبغسلها؛ لأن الكلام في غير المرئية أي: ما لا يتشرب النجاسة مما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاثا ولو بدفعة بلا تجفيف كالخزف والآجر مطلب في تطهير الدهن والعسل."

(کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، 1/ 332، ط؛سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

”دری  یا ٹاٹ کو دھو کر ڈال دو جب پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو دوسری بار دھوؤ اور پھر جب پانی ٹپکنا بند ہو جائے تو تیسری بار دھوؤ پاک ہو جائے گی۔“

(ج:دوم، کتاب الطھارۃ، ص:342، ط:دار الاشاعت)

فقط والله اَعلم


فتوی نمبر : 144511101338

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں