جو کام نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو ،نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو،اور نہ آپ سے اس کا منع ہونا ثابت ہو، تو کیا وہ کام جائز ہوتا ہے؟
واضح رہے کہ جو کام نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو ،نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو،اور نہ آپ سے اس کا منع ہونا ثابت ہو تو ایسے کام کا حکم یہ ہے کہ اگر لازم سمجھا جائےتو بدعت ہے، اور اگر شریعت کے کسی حکم کے مخالف نہ ہو تو مباح ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟."
(کتاب الصلوۃ ، باب الدعاء فی التشھد ، ج:3، ص:31، ط :مکتبہ التجاریہ مکہ مکرمہ)
الاعتصام للشاطبی میں ہے:
"ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك ،ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته."
(الباب الاول فی تعریف البدع وبیان معناھا، ج:1، ص:51، ، ط:دار ابن الجوزی السعودیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102270
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن