بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جو شخص فحش فلمیں وغیرہ دیکھتا ہو اس کو اپنے ساتھ نیٹ پیکج میں شریک کرنے کا حکم


سوال

سوال یہ ہے کہ  آج کل زونگ (zong)  کمپنی کا ایک پیکج آیا ہوا ہے،  جس کی قیمت تقریبا 2750  روپے ہے اور اس پیکج میں یہ ترتیب ہے کہ ایک بندہ کو ایڈمین بناتے ہیں اور ایڈمین چار بندوں کو شامل کرسکتاہے، اب ان پانچ بندوں میں سے ہر ایک 550  روپے یعنی اپنے حصہ کا دے کر اس میں شامل ہوجاتا ہے، اور اس پیکج میں200  جی بی (GB)  انٹرنیٹ ہوتا ہے ، اور یہ نیٹ پانچ بندوں میں تقسیم نہیں ہوتا ، بلکہ جو جتنا مرضی چلائے،  اب یہاں ایک سوال ہے کہ کیا اگر ان پانچ بندوں میں سے ایک بندہ ننگی فلمیں دیکھتا ہے یا گناہ کا کام کرتا ہے تو کیا ان پانچوں کے پانچ کو گناہ ملے گا  ، جو اس پیکج میں شریک ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال (جائز اور ناجائز) دونوں طرح کے کاموں میں ہوسکتا ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی ایک شخص کے فحش فلمیں وغیرہ دیکھنے کی بنا پر،باقی شرکاء گناہ گار نہیں ہوں گے۔تاہم اگر کسی شخص کے بارے میں یہ یقین یا ظنِ غالب ہو کہ وہ انٹرنیٹ کا استعمال صرف اسی طرح کے ناجائز کاموں میں ہی کرے گا اور فحش فلمیں وغیرہ دیکھے گا،تو بہتر یہ ہے کہ ایسے شخص کو اپنے ساتھ شریک نہ کیا جائے، کیوں کہ ایسا کرنا ،اس کو معصیت( گناہ)  پر مدد کرنے کے مترادف ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

" وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَىٰۖ وَلَا ‌تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۖ إِنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلۡعِقَابِ " [المائدة: 2]     

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) جاز (إجارة بيت بسواد الكوفة) أي قراها (لا بغيرها على الأصح) وأما الأمصار وقرى غير الكوفة فلا يمكنون لظهور شعار الإسلام فيها وخص سواد الكوفة، لأن غالب أهلها أهل الذمة (ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر) وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة زيلعي.

قوله وجاز إجارة بيت إلخ) هذا عنده أيضا لأن الإجارة على منفعة البيت، ولهذا يجب الأجر بمجرد التسليم، ‌ولا ‌معصية فيه وإنما المعصية بفعل المستأجر وهو مختار فينقطع نسبيته عنه، فصار كبيع الجارية ممن لا يستبرئها أو يأتيها من دبر وبيع الغلام من لوطي والدليل عليه أنه لو آجره للسكنى جاز وهو لا بد له من عبادته فيه اهـ زيلعي وعيني ومثله في النهاية والكفاية، قال في المنح: وهو صريح في جواز بيع الغلام من اللوطي، والمنقول في كثير من الفتاوى أنه يكره وهو الذي عولنا عليه في المختصر اهـ.

أقول: هو صريح أيضا في أنه ليس مما تقوم المعصية بعينه، ولذا كان ما في الفتاوى مشكلا كما مر عن النهر إذ لا فرق بين الغلام وبين البيت والعصير " فكان ينبغي للمصنف التعويل على ما ذكره الشراح فإنه مقدم على ما في الفتاوى. نعم على هذا التعليل الذي ذكره الزيلعي يشكل الفرق بين ما تقوم المعصية بعينه وبين ما لا تقوم بعينه، فإن المعصية في السلاح والمكعب المفضض ونحوه إنما هي بفعل الشاري فليتأمل في وجه الفرق فإنه لم يظهر لي ولم أر من نبه عليه. نعم يظهر الفرق على ما قدمه الشارح تبعا لغيره من التعليل، لجواز بيع العصير بأنه لا تقوم المعصية بعينه، بل بعد تغيره فهو كبيع الحديد من أهل الفتنة، لأنه وإن كان يعمل منه السلاح لكن بعد تغيره أيضا إلى صفة أخرى. وعليه يظهر كون الأمرد مما تقوم المعصية بعينه كما قدمناه فليتأمل."

 (‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:392، ط:دار الفکر۔بیروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144602102181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں