بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جوائنٹ اکاؤنت میں جمع شدہ رقم کی زکوٰۃ ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟


سوال

اگر میاں بیوی کا جوائنٹ اکاؤنٹ ہے تو اس اکاؤنٹ میں موجود رقم کی زکوۃ کیسے ادا ہوگی؟ 

جواب

واضح رہے کہ قابل زکوٰة  مال  کی زکات ادا کرانا،  مال کے مالک پر ہی لازم ہوتا ہے، پس اگر میاں بیوی کا جوائنٹ اکاؤنٹ اس طور پر ہے کہ رقم کا اصل مالک صرف شوہر یا صرف بیوی ہے، جب کہ دوسرے کا نام سہولت کے غرض سے اکاؤنٹ میں شامل کیا گیا ہے، تاکہ رقم نکالنے وغیرہ کے اعتبار سے سہولت ہو، تو اکاؤنٹ میں موجود تمام رقم کی زکوٰة ادا کرنا اصل مالک کے ذمہ لازم ہوگا، البتہ اگر جوائنٹ اکاؤنٹ میں موجود رقم میاں بیوی کی مشترکہ رقم ہو، تو دونوں پر اپنے اپنے حصے کی رقم کے بقدر زکوٰة لازم ہوگی،  اور ان دونوں میں سے ہر ایک سال مکمل ہونے پر اپنے مال کی زکوٰة خود ادا کرنے کا پابند ہوگا، بشرطیکہ ان دونوں میں سے ہر ایک کی ذاتی رقم تنہا یا دیگر  اموال زکوٰة مثلاً، سونے ،چاندی اور سامانِ تجارت کے ساتھ مل کر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زائد بنتی  ہو، نیز  دونوں میں سے ہر ایک نے زکوٰة ادا کرنے کے حوالہ سے دوسرے  کو اپنا وکیل بنادیا ہو، تو اس صورت میں کل مال کی زکوٰة کا حساب کرکے دوسرا   شریک دونوں کی طرف سے اگر زکوٰة  کردے، تو زکوٰة ادا ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ ميں ہے:

"ومنها الملك التام وهو ما اجتمع فيه الملك واليد وأما إذا وجد الملك دون اليد كالصداق قبل القبض أو وجد اليد دون الملك كملك المكاتب والمديون لا تجب فيه الزكاة كذا في السراج الوهاج ... (ومنها حولان الحول على المال)."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة صفتها وشرائطها، ج: 2، ص: 172،175 ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"قال أصحابنا: إنه يعتبر في حال الشركة ما يعتبر في حال الانفراد وهو كمال النصاب في حق كل واحد منهما فإن كان نصيب كل واحد منهما يبلغ نصابا تجب الزكاة وإلا فلا." 

(کتاب الزکاۃ، فصل فی نصاب الغنم، ج: 2، ص: 29، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)."

"(قوله ويضم إلخ) أي عند الاجتماع. أما عند انفراد أحدهما فلا تعتبر القيمة إجماعا بدائع؛ لأن المعتبر وزنه أداء ووجوبا كما مر. وفي البدائع أيضا أن ما ذكر من وجوب الضم إذا لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان أقل، فلو كان كل منها نصابا تاما بدون زيادة لا يجب الضم بل ينبغي أن يؤدي من كل واحد زكاته، فلو ضم حتى يؤدي كله من الذهب أو الفضة فلا بأس به عندنا، ولكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ج: 2، ص: 303، ط: ايچ ايم سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ليس ‌لأحد ‌الشريكين أن يؤدي زكاة مال الآخر إلا بإذنه، كذا في الاختيار."

(کتاب الشرکة، الباب السادس في المتفرقات، ج: 2، ص: 336، ط: دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں