بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جوئے کی حرمت


سوال

 میں دو مہینے سے جوئے کی لت میں مبتلا ہو گیا اور اپنا نقصان پورا کرنے کی لالچ میں 3 لاکھ 40 ہزار روپے ہار چکا ہوں ،اب بہت پریشان ہوں کہ کیسے لوگوں کا قرض واپس کروں گا ،جب بھی چھوڑنے کا سوچتا ہوں تو ذہن میں آتا ہے کہ اس بار جیت جاؤں گا اور لوگوں کو ان کے پیسے واپس کر دوں گا اور اس لعنت سے نجات حاصل کر لوں گا ۔

جواب

''جو ا'' جسے عربی زبان میں "قمار"اور "میسر" کہا جاتا ہےازروئے شرع حرام اور ناجائز ہے اور گناہ کبیرہ ہے،اس کے گناہ ہونے کی سب سے بنیادی دلیل یہ ہے کہ   قرآن کریم  و حدیث میں جوے کی واضح ممانعت موجود ہے،لہذا صورت مسئولہ میں سائل پر لازم ہے کہ کہ وہ اس حرام کام کو چھوڑ دے اور اس کے بجائے محنت مزدوری اور کسی بھی جائز پیشے کو ذریعہ معاش بنائے۔ اور حلال ذریعہ معاش سے کما کر اپنا قرض واپس کرے یا کسی شخص سے غیر سودی قرض لے کر اپنا قرض چکادے۔

قرآن مجیدمیں ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ " [المائدة :90]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو قال: ‌من ‌لعب ‌بالنرد ‌قمارا كان كآكل لحم الخنزير، ومن لعب بها غير قمار كان كالمدهن بودك الخنزير".

(كتاب الأداب، فصل في اللعب بالنرد وما جاء فيه، ج:14، ص:372، ط:دار كنوز)

"حضرت عبداللہ ابن عمرورضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ جوشخص نے نرد(چوسر) جوے کے طور پر کھیلتاہے وہ خنزیر کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے،اور جو شخص نرد جوئے کے طور پر نہیں کھیلتاتو اس کی مثال خنزیر کی چربی کا تیل استعمال کرنے والے کی طرح ہے۔" 

جوئے کے ممنوع ہونے کی حکمت :

جس معاشرے میں جوا اور سٹہ بازی کا چلن عام ہوجائے،تو وہاں لوگوں میں نفرت و عداوت اوردین سے دوری کی  فضا پیدا ہوجاتی ہے،اسی لیے اسلام کی آمد سے قبل عرب معاشرے میں جوا کھیلاجاتا تھا تو وہ دین سے بھی دور تھے،اور ان میں قتل و غارت گری بھی بکثرت پائی جاتی تھی،اسی لیے قرآن مجید میں  جوے کی ممانعت کی حکمت اور وجہ   میں یہ دو چیزیں اور بالخصوص نماز سے دوری کو ذکر کیا گیا ہے۔ 

قرآن مجید میں ہے:

"إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ"(سورة المائدة:91)

"ترجمہ:شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کردے،اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے،سو اب بھی باز آؤ گے۔"(از بیان القرآن)

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: ‌إن ‌المخاطرة ‌قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه ".

(باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط:دارالكتب العلمية)

حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:

"وكان الميسر والربا شائعين في العرب، وكان قد حدث بسببهما مناقشات عظيمة لا انتهاء لها ومحاربات، وكان قليلهما يدعوا إلى كثيرهما، فلم يكن أصوب ولا أحق من أن يراعى حكم القبح والفساد موفرا، فينهى عنهما بالكلية".

(البيوع المنهي عنها، ج:2، ص:165، ط:دارالجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں