بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جھوٹا اقرار کرنے سے حرمتِ مصاہرت کا ثیوت


سوال

مفتی صاحب میں نے  فتویٰ نمبر 144310100018 میں آپ سے ایک فتویٰ پوچھا تھا حرمتِ مصاہرت کے بارے میں،  جس کاجواب مُجھے چاہیے تھا، آپ نے اُس کی وضاحت نہیں کی،  اس لیے مہربانی فرما کر اُس کا جواب مجھے دے دیجیے۔ میرے اصل پوچھنے کا مقصد تھا  کہ شہوت کا یقین نہیں تھا صرف شک تھا، لیکن  جو غلطی  سے شہوت کا اقرار  کر  بیٹھا،  مسئلہ پوچھنے میں اُس سے کچھ فرق پڑے گا یا نہیں؟  اُس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی یا نہیں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعی زیدکے جسم اور پھوپھی کے جسم کے درمیان موٹا کپڑا  حائل تھا جو جسم کی گرمائش   پہنچنے سے مانع تھا، اور زید کو شہوت کا شبہ تھا، یقین نہیں تھا اور اس نے غلطی سے شہوت کا اقرار کر کے سوال کیا تھا    تو ایسی صورت میں غلطی سے شہوت کا اقرار کرنے کی وجہ سے زید اور  اس کی پھوپھی کے درمیان حرمتِ  مصاہرت ثابت نہیں ہوئی ۔ زیدکا  پھوپھی کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي: ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره، فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.

(قوله: وأصل ماسته) أي: بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"

( حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب النكاح،  فصل في المحرمات (3/ 33)، ط. سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لو أقر بحرمة المصاهرة يؤاخذ به ويفرق بينهما وكذلك إذا أضاف ذلك إلى ما قبل النكاح بأن قال لامرأته: كنت جامعت أمك قبل نكاحك يؤاخذ به ويفرق بينهما ولكن لا يصدق في حق المهر حتى يجب المسمى دون العقد، والإصرار على هذا الإقرار ليس بشرط حتى لو رجع عن ذلك وقال: كذبت فالقاضي لا يصدقه ولكن فيما بينه وبين الله تعالى إن كان كاذبا فيما أقر لا تحرم عليه امرأته".

(الفتاوى الهندية: كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية (1/ 275)، ط. رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں