ہمارے علاقے میں جمعہ کی نماز ایک مسجد میں 15 :3بجے ہوتی ہے، اور دوسری مسجد میں 30: 3 بجے ہوتی ہے، پورے سال کا یہی وقت مقرر ہے، جب کہ ایک قریبی اہلِ حدیث کی مسجد کی سردیوں میں 20: 3 پرعصر کی اذان ہوتی ہے۔
پوچھنا یہ ہے کہ جمعہ کی نماز 30 : 3 بجے ادا کرنا درست ہے یا نہیں؟جب کہ عصر کا وقت 00 : 4 شروع ہو جاتا ہے۔
نماز جمعہ کا وقت سورج ڈھلنے/ زوال سے شروع ہوتا ہے، اور مثل ثانی یعنی جب ہر چیز کا سایہ دوگنا ہوجائے تو ختم ہوجاتا ہے، اور احناف کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی نمازمطلقاً خواہ گرمی ہو یا سردی ہمیشہ اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جمعہ کی نماز اول وقت میں ادا کی ہے،اور احادیث مبارکہ سے بھی تعجیل ہی ثابت ہے، نیز جمعہ ایک بڑا مجمع ادا کرتا ہے، اور لوگ کافی پہلے سے آئے ہوتے ہیں، اس لیے اس میں تاخیر کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نمازِ جمعہ تاخیر سے پڑھنے سے نماز ادا ہو جائے گی، تاہم اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے اس لیے پورا سال گرمی ہو یا سردی اول وقت میں ہی ادا کرنی چاہیے۔ ساڑھے تین یا سواتین بجے تک تاخیر کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ کے خلاف ہے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"عن أنس: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي الجمعة حين تميل الشمس. رواه البخاري".
(كتاب الصلاة، باب الخطبة والصلاة، الفصل الأول، ج : 1، ص : 125، ط : رحمانية)
ترجمہ :
”حضرت انس راوی ہیں کہ سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب کہ آفتاب ڈھل جاتا۔“ (بخاری )
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:
”(سوال ۲۳۳۹) بموجب عقائد حنفیہ آج کل جمعہ کے لئے مستحب وقت کیا ہے؟
( الجواب ) حنفیہ کا صحیح مذہب یہ ہے کہ جمعہ میں تعجیل مستحب ہے۔ ابراد یعنی تاخیر جو کہ ظہر کی نماز میں موسم گرما میں مستحب ہے وہ جمعہ میں نہیں ہے بلکہ جمعہ کو جلد ادا کرنا مستحب ہے اور احادیث سے بھی جمعہ کی تعجیل ہی ثابت ہوتی ہے۔ پس زوال کے بعد مثلاً ساڑھے بارہ بجے اذان جمعہ ہونی چاہئے ، پھر دس پندرہ منٹ بعد خطبہ ، اور اس کے بعد نماز ہونی چاہئے ، مثلا ایک بجے تک یہ سب کام ہو جاویں یا کسی قدر کم و بیش ہو۔ ..... پس ایسے امور میں امام کو اوقات مستحب کی رعایت چاہئے۔ متولی کی ہدایات پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے ، اور متولی کو ہدایات دینے کی حاجت بھی نہیں ہے۔ جو اوقات نمازوں کے مستحب ہیں امام خود انکی رعایت رکھے گا فقط۔“
(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ الجمعۃ، جمعہ کے لئے مستحب وقت، ج : 5، ص : 47، ط : دار الاشاعت)
وفیہ ایضاً :
”مختلف موسموں میں حکم مختلف ہوتا رہتا ہے۔ زوال سے پہلے ظہر اور جمعہ کا وقت نہیں ہوتا اور گرمیوں میں ظہر میں تاخیر مستحب ہے اور جمعہ میں ہمیشہ تعجیل مستحب ہے لیکن اس کا خیال رکھا جاوے کہ وقت ہو جاوے۔ ساڑھے بارہ بجے سے پہلے جمعہ کی اذان نہ کہی جاوے اور ایک بجے جمعہ پڑھا جاوے۔ اور ظہر میں موسم گرما میں تاخیر چاہئے ۔ اذان دو ڈیڑھ بجے اور نماز سواد و یا اڑھائی بجے پڑھنی چاہئے اور جاڑوں میں ایک ڈیڑھ بجے۔“
(کتاب الصلاۃ، الباب الاول فی المواقیت، ج : 2، ص : 36، ط : دار الاشاعت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(ووقت الظهر من زواله) أي ميل ذكاء عن كبد السماء (إلى بلوغ الظل مثليه) وعنه مثله، وهو قولهما وزفر والأئمة الثلاثة. قال الإمام الطحاوي: وبه نأخذ. وفي غرر الأذكار: وهو المأخوذ به. وفي البرهان: وهو الأظهر. لبيان جبريل. وهو نص في الباب. وفي الفيض: وعليه عمل الناس اليوم وبه يفتى....(قوله: إلى بلوغ الظل مثليه) هذا ظاهر الرواية عن الإمام نهاية، وهو الصحيح بدائع ومحيط وينابيع، وهو المختار غياثية واختاره الإمام المحبوبي وعول عليه النسفي وصدر الشريعة تصحيح قاسم واختاره أصحاب المتون، وارتضاه الشارحون".
وفيه ايضا :
"(وجمعة كظهر أصلا واستحبابا) في الزمانين؛ لأنها خلفه.....(قوله: واستحبابا في الزمانين) أي الشتاء والصيف ح، لكن جزم في الأشباه من فن الأحكام أنه لا يسن لها الإبراد. وفي جامع الفتاوى لقارئ الهداية: قيل إنه مشروع؛ لأنها تؤدى في وقت الظهر وتقوم مقامه، وقال الجمهور: ليس بمشروع؛ لأنها تقام بجمع عظيم، فتأخيرها مفض إلى الحرج ولا كذلك الظهر وموافقة الخلف لأصله من كل وجه ليس بشرط".
(كتاب الصلاة، ج : 1، ص : 67۔359، ط : سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144605101682
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن