بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جمعہ کی نماز کے لئے فرصت نہ ملے تو کیا ظہر کی نماز پڑھ سکتے ہیں؟


سوال

ہمارے سکول و کالج کے کچھ دوست واحباب ہیں ،وہ اکیڈمی میں دوپہر 12 بجے جاتے ہیں ،شام کو واپس آتے ہیں تو اسی دوران جمعہ کے دن بہت سی مساجد میں جمعہ کی نماز ہوتی ہے ،لیکن اس کالج کے  قریب جومسجد ہے اس میں نماز جمعہ ہماری چھٹی سےپہلےجلدی ہو جاتی ہے،جبکہ دور کی مساجد میں نماز جمعہ کےلئےاتنا وقت ہوتا ہے کہ ہم وہاں پہنچ تو سکتے ہیں ،لیکن اسی دوران اِدھر کالج میں کلاس شروع ہوجاتی ہے ۔

تواس وقت کیا ہم ظہرکی نمازعلیحدہ طورپر پڑھ سکتے ہیں؟یاجماعت کےساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہےکہ جمعہ کےدن شہر،قصبہ،بڑے گاؤں،مضافات شہر  میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی وہاں کے رہائشیوں پر فرض ہوتی ہے۔کسی شرعی عذر (جیسےسفر، بیماری، یا بیمار کی تیمارداری وغیرہ)کےبغیرجمعہ کی نماز ترک کرنا جائز نہیں،جان بوجھ کر جمعہ کی نماز ترک کرنا منافقت کی علامت ہے۔لہذا صورت مسؤلہ میں کالج کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا جائے کہ جمعہ کی نماز کے وقت طلبہ کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کا موقع دیا جائے،بصورت دیگر کلاس کے دوران جمعہ کی نماز ادا کرنےکے لیے جانا ضروری ہوگا۔نیز جمعہ کے روز  شہر والوں کے لیے باجماعت ظہر کی نماز ادا کرنے کی شرعا اجازت نہیں ہے، اسی طرح بلا وجہ جمعہ کی نماز چھوڑ کر ظہر کی نماز ادا کرنے کامعمول بنانابھی جائزنہیں ہے۔

 جیسا کہ مبسوط سرخسی میں ہے:

"وأما الإساءة فلتركهم أداء الجمعة بعد ما استجمعوا شرائطها، وفي حديث ابن عمر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك ثلاث جمع تهاونًا بهاطبع على قلبه»." 

 (كتاب الصلاة، باب صلاةالجمعة، شروط الصلاة،ج: 2، ص: 25، ط: السعادة\مصر)

اور تنویرمع الدرالمختارمیں ہے:

"(وكره) تحريمًا (لمعذور ومسجون) ومسافر (أداء ظهر بجماعة في مصر) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع.

(وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة. ويستحب للمريض تأخيرها إلى فراغ الإمام وكره إن لم يؤخر هو الصحيح".

  (كتاب الصلاة، باب صلاةالجمعة، ج: 2، ص: 157، ط: ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضا:

"(ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح"

 (كتاب الصلاة\باب صلاةالجمعة، ج: 2: ص، 161، ط: ایچ ایم سعید)

وفیہ ایضا:

"(هي فرض) عين (يكفر جاحدها) لثبوتها بالدليل القطعي كما حققه الكمال وهي فرض مستقل آكد من الظهروليست بدلا عنه كما حرره الباقاني معزيا لسري الدين بن الشحنة."

(كتاب الصلاة، باب صلاةالجمعة،  ج: 2، ص: 137، ط: ایچ ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144608100961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں