بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعہ یا وعظ وغیرہ کی مجلس میں لوگوں کی گردن پھلانگ کر آگے جانا اور امام کا اس پر تنبیہ کرنا


سوال

ایک حدیث کے متعلق مفتیانِ کرام کی راہ نمائی مطلوب ہے:

"باب ما جاء في كراهية التخطي يوم الجمعة: ... قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تخطى رقاب الناس يوم الجمعة اتخذ جسرا إلى جهنم»"

(سنن ترمذي، 1/ 315، ط: البشری)

سوال یہ ہے کہ:

1:  مذکورہ وعید فقط خطبہ کے وقت کے لیے ہے یا اس سے پہلے مقامی زبان میں کئے جانے والے  بیان اور عام دینی مجالس  کے لیے بھی ہے؟

2: مذکورہ حدیث کے تناظر میں آج کل امام وخطیب کی کیا ذمہ داری ہے؟

3: اگر کوئی امام دوران ِ وعظ کندھے پھلانگتے ہوئے آگے بڑھنے والے شخص کو وہیں بیٹھنے کا کہے اور دینی فریضہ سمجھ کر کبھی کبھی یہ حدیث بھی سنائیں تو امام کا ایسا کرنا کیسا ہے؟  جب کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام بھری مجلس میں نشانہ بنادیتے ہیں، حالاں کہ امام فقط اصلاح  کی نیت سے کہتا ہے۔

جواب

1: کسی بھی بڑے مجمع خواہ وہ  سبق، وعظ کی مجلس ہو  یا جمعہ کا بیان ، لوگوں کی گردنیں پھلانگ  کر آگے جانے کی ممانعت کی  وجہ یہ ہے کہ یہ اکرامِ مسلم کے خلاف ہے، اور اس میں  ایذاء مسلم ہے، جوکہ شرعاً حرام ہے، لہذا اس طرح کے بڑے مجمع میں جس میں لوگوں کا ہجوم ہو ،  اگر شدید ضرورت نہ ہو، اور آگے بڑھنے سے کسی مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو  لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے پہنچنا  جائز نہیں ہے، لیکن اگر ضرورت ہو مثلا   پیچھے جگہ نہ ہو اور اگلی صف میں جگہ موجود ہو،  یا کوئی آگے بیٹھا ہو اور کسی طبعی تقاضے کی وجہ سے  اسے فوری باہر نکلنا ہو،  یا  لوگ کشادہ کشاہ بیٹھے ہوں اور آگے آنے  سے  کسی کو تکلیف نہ ہو،  یا آنے والا   کوئی مقتدیٰ وپیشوا ہو جس کے آگے جانے  میں لوگ  تکلیف محسوس نہ کرتے ہوں  تو ان  تمام صورتوں میں آگے جانے کی اجازت ہوگی۔

باقی مذکورہ حدیث میں  جمعہ کی تخصیص ، اس کی عظمت کی وجہ سے ہے اور یہ کہ عام طور پر جمعہ  کی نماز میں  مجمع زیادہ ہوتا ہے۔ نیز  اگر امام  عربی خطبہ شروع کرچکا ہو تو پھر لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانے میں ایذاء مسلم کے ساتھ ،  خطبہ کے دوران عمل كرنا بھی پایا جاتا  ہے، لہذا خطبہ کے دوران  اس طرح کرنا منع ہے۔

2:اگر لوگ واقعۃ ً  کسی ناجائز کام میں مبتلاء ہیں تو  حکمت ومصلحت کے ساتھ ان کو شرعی حکم سے آگاہ کرنا ضروری ہے۔

3: امام حسب ضرورت، موقع محل کی مناسبت سے ،  حکمت اور مصلحت کے ساتھ ، اصلاح کا طریقہ اختیار کرسکتا ہے، ہر موقع پر یکساں طریقہ اختیار کرنا حکمت ومصلحت کے خلاف ہے،  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  کسی  غلط کام کو دیکھتے کبھی اصلاح کی غرض سے نام لیے بغیر عمومی انداز میں  لوگوں کو مخاطب کرکے غلطی پر تنبیہ فرمادیتے تھے، اور کبھی ضرورت پر  براہ راست بھی کہہ دیتے تھے جیساکہ ایک مرتبہ ایک شخص جمعہ کے دن خطبہ کے دوران گردنیں پھلانگ کر آگے آنے لگا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے   اس سے اسی وقت فرمایا:  (وہیں)بیٹھ جاؤ  (یعنی لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے نہ آؤ) تم نے  تکلیف پہنچائی۔  خلاصہ یہ ہے کہ امام کو حکمت وبصیرت کے ساتھ موقع محل کی مناسبت سے تنبیہ کرنی چاہیے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري " میں ہے:

"وقال صاحب (التوضيح) : وقد اختلف العلماء في التخطي، فمذهبنا أنه مكروه إلا أن يكون قدامه فرجة لا يصليها إلا بالتخطي فلا يكره حينئذ، وبه قال الأوزاعي وآخرون، وقال ابن المنذر بكراهته مطلقا عن سلمان الفارسي وأبي هريرة، وكعب وبن سعيد بن المسيب وعطاء وأحمد بن حنبل، وعن مالك: كراهته إذا جلس على المنبر، ولا بأس به قبله. وقال قتادة: يتخطاهم إلى مجلسه. وقال الأوزاعي: يتخطاهم إلى السعة وهذا يشبه قول الحسن، قال: لا بأس بالتخطي إذا كان في المسجد سعة، وقال أبو بصرة: يتخطاهم بإذنهم. وقال ابن المنذر: لا يجوز شيء من ذلك عندي، لأن الأذى يحرم قليله وكثيره، وقال صاحب (التوضيح) : وهو المختار، وعند أصحابنا الحنفية لا بأس بالتخطي والدنو من الإمام إذا لم يؤذ الناس. وقيل: لا بأس به إذا لم يأخذ الإمام في الخطبة، ويكره إن أخذ. وقال الحلواني: الصحيح أن الدنو من الإمام أفضل لا التباعد منه، ثم تقييد التخطي بالكراهة يوم الجمعة هو المذكور في الأحاديث، وكذلك قيده الترمذي في حكايته عن أهل العلم، وكذلك قيده الشافعية في كتب فقههم في أبواب الجمعة، وكذا هو عبارة الشافعي في (الأم) : وأكره تخطي رقاب الناس يوم الجمعة لما فيه من الأذى وسوء الأدب. انتهى. قلت: هذا التعليل يشمل يوم الجمعة وغيره من سائر الصلوات في المساجد وغيرها، وسائر المجامع من حلق العلم وسماع الحديث ومجالس الوعظ، وعلى هذا يحمل التقييد بيوم الجمعة على أنه خرج مخرج الغالب لاختصاص الجمعة بمكان الخطبة وكثرة الناس، بخلاف غيره. ويؤيد ذلك ما رآه أبو منصور الديلمي في (مسند الفردوس) من حديث أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من تخطى حلقة قوم بغير إذنهم فهو عاص) ، ولكنه ضعيف لأنه من رواية جعفر بن الزبير، فإنه كذبه شعبة وتركه للناس."

(6 / 208، باب لا يفرق بين اثنين يوم الجمعة، ط: داراحياء التراث العربي، بيروت)

بذل المجهود في حل سنن أبي داود  "میں ہے:

"(فقال عبد الله بن بسر: جاء رجل) لم يعرف (يتخطى رقاب الناس يوم الجمعة، والنبي - صلى الله عليه وسلم - يخطب، فقال له النبي - صلى الله عليه وسلم -: اجلس)  أي لا تجاوزهم ولا تتخط رقابهم  (فقد آذيت) أي الناس أو إياي، وفي رواية ابن ماجه : "وآنيت" بهمزة ممدودة، أي: أبطأت وتأخرت.

قال الشوكاني : وأحاديث الباب تدل على كراهة التخطي يوم الجمعة، وظاهر التقييد بيوم الجمعة: أن الكراهة مختصة به، ويحتمل أن يكون التقييد خرج مخرج الغالب؛ لاختصاص الجمعة بكثرة الناس، بخلاف سائر الصلوات؛ فلا يختص ذلك بالجمعة، بل يكون حكم سائر الصلوات حكمها، ويؤيد ذلك بالتعليل بالأذية، وظاهر هذا التعليل أن ذلك يجري في مجالس العلم وغيرها...  قال العراقي: وقد استثني من التحريم أو الكراهة الإمام أو من كان بين يديه فرجة لا يصل إليها إلا بالتخطي، وهكذا أطلق النووي في "الروضة"، وقيد ذلك في "شرح المهذب"  فقال: إذا لم يجد طريقا إلى المنبر أو المحراب إلا بالتخطي لم يكره, لأنه ضرورة، وروي نحو ذلك عن الشافعي.   وحديث عقبة بن الحارث وهو "أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان مسرعا، فتخطى رقاب الناس إلى بعض حجر نسائه" يدل على جواز التخطي للحاجة في غير الجمعة، فمن خصص الكراهة بصلاة الجمعة فلا معارضة بينه وبين أحاديث الباب عنده، ومن عمم الكراهة لوجود العلة المذكورة في الجمعة وغيرها فهو محتاج إلى الاعتذار عنه، وقد خص الكراهة بعضهم بغير من يتبرك الناس بمروره ويسرهم ذلك، ولا يتأذون لزوال علة الكراهة التي هي التأذي.

وأما حكم التخطي عند الحنفية، فقال الطحطاوي في شرح "مراقي الفلاح" : قال الحلبي: وينبغي أن يقيد النهي عن التخطي بما إذا وجد بدا، أما إذا لم يجد بدا بأن لم يكن في الوراء موضع، وفي المقدم موضع، فله أن يتخطى إليه بالضرورة.

وفي "الخلاصة": إذا دخل الرجل الجامع وهو ملآن، إن كان تخطيه يؤدي الناس لم يتخط، وإن كان لا يؤدي أحدا بأن لا يطأ ثوبا ولا جسدا، فلا بأس أن يتخطى، ويدنو من الإمام، وروى الفقيه أبو جعفر عن أصحابنا: أنه لا بأس بالتخطي ما لم يخرج الإمام أو يؤذ أحدا، انتهى.

وحاصله أن التخطي جائز بشرطين: عدم الإيذاء، وعدم خروج الإمام، لأن الإيذاء حرام، والتخطي عمل، وهو بعد خروج الإمام حرام، فلا يرتكبه لفضيلة الدنو من الإمام، بل يستقر في موضعه من المسجد، وما ذكر في "البحر" وغيره من أن من وجد فرجة في المقدم له أن يخرق الثاني, لأنه لا حرمة لهم لتقصيرهم، يحمل على الضرورة أو على عدم الإيذاء، أو على الاستئذان قبل خروج الإمام جمعا بين الروايات، انتهى."

 (5 / 177 ،178،  باب تخطي رقاب الناس يوم الجمعة، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتاوی شامی میں ہے :

"لا بأس بالتخطي ما لم يأخذ الإمام في الخطبة ولم يؤذ أحدا إلا أن لا يجد إلا فرجة أمامه فيتخطى إليها للضرورة ويكره التخطي للسؤال بكل حال

(قوله ولم يؤذ أحدا) بأن لا يطأ ثوبا ولا جسدا وذلك لأن التخطي حال الخطبة عمل، وهو حرام وكذا الإيذاء والدنو مستحب وترك الحرام مقدم على فعل المستحب ولذا «قال - عليه الصلاة والسلام - للذي رآه يتخطى الناس ويقول افسحوا اجلس فقد آذيت» وهو محمل ما روى الترمذي عن معاذ بن أنس الجهني قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من تخطى رقاب الناس يوم الجمعة اتخذ جسرا إلى جهنم» شرح المنية."

(2 / 163، باب الجمعة، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں