جمعہ کی نماز سے پہلے کی سنت اگر نا پڑھ سکے تو فرض نماز کے بعد پڑھنا ضروری ہے کہ نہیں؟
اگر کسی شخص سے جمعہ کے دن فرض نماز سے پہلے والی چار سنتیں رہ جائیں تو بہتر یہ ہے کہ فرض کے بعدوالی سنت مؤکدہ اداکرنےکے بعد پہلے والی چار رکعتیں اداکرلے۔اوراگرفرض کی ادائیگی کے بعد جمعہ سے پہلے والی چارسنتوں کومقدم کردے اورپھربعد والی چھ رکعات سنتیں اداکرے تب بھی درست ہے۔(کفایت المفتی،کتاب الصلوۃ،جلد سوم ، ص: 317، ط: دار الاشاعت، کراچی)
پہلے کی سنتیں اتفاقاً یا کسی عذر کی وجہ سے رہ جائیں تو انہیں بعد میں ادا کرنا واجب تو نہیں ہے، لیکن سنتوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا یا چھوڑنے کی عادت بنالینا گناہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 58):
(قوله: وكذا الجمعة) أي حكم الأربع قبل الجمعة كالأربع قبل الظهر كما لا يخفى، بحر، وظاهره أنه لم يره في البحر منقولا صريحا، وقد ذكره في القهستاني، لكن لم يعزه إلى أحد. وذكر السراج الحانوتي أن هذا مقتضى ما في المتون وغيرها، لكن قال في روضة العلماء إنها تسقط لما روي أنه عليه الصلاة والسلام قال " إذا خرج الإمام فلا صلاة إلا المكتوبة " اهـ رملي.
أقول: وفي هذا الاستدلال نظر لأنه إنما يدل على أنها لا تصلى بعد خروجه لا على أنها تسقط بالكلية ولا تقضى بعد الفراغ من المكتوبة، وإلا لزم أن لا تقضى سنة الظهر أيضا، فإنه ورد في حديث مسلم وغيره «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» نعم قد يستدل للفرق بينهما بشيء آخر، وهو أن القياس في السنن عدم القضاء كما مر، وقد استدل قاضي خان لقضاء سنة الظهر بما عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا فاتته الأربع قبل الظهر قضاهن بعده» فيكون قضاؤها ثبت بالحديث على خلاف القياس كما في سنة الفجر، كما صرح به في الفتح، فالمقول بقضاء سنة الجمعة يحتاج إلى دليل خاص، وعليه فتنصيص المتون على سنة الظهر دليل على أن سنة الجمعة ليست كذلك فتأمل. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144108200458
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن