بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعے کے دن ظہر کا وقت داخل ہونے سے قبل سفر کرنا


سوال

کیا جمعہ کے دن ظہر کا وقت داخل ہونے سے پہلے آدمی سفر کرسکتا ہے؟ جب کہ سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنی مشکل ہو ۔

جواب

جمعہ کے دن سفر کرنا شرعاً درست ہے،کچھ ممنوع نہیں ،لیکن علماۓاحناف کے نزدیک جمعے کے دن  سفر کرنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ جب جمعے کا  وقت(یعنی زوال کا وقت) داخل ہونے سے پہلے آدمی سفر کرکے شہر سے باہر نکل جاۓ،کیوں کہ زوال سے قبل جمعہ واجب نہیں ہوتا اور جب وقت داخل ہوگا اس وقت وہ  شخص مسافر ہوگا اور مسافر پر جمعہ واجب نہیں ،اسی طرح اگروقت داخل ہونے کے بعد سفر کیا جاۓ اور  شہر سے نکلنے سے پہلے تک وقت باقی ہواور جمعے کی نماز  ادا کرنا ممکن ہو تو ایسی صورت میں بھی سفر کرنا درست ہے، لیکن  جب آدمی کو پہلے سے معلوم ہو کہ سفر کی وجہ سے نماز جمعہ فوت ہوجائے گی تو  اس صورت میں نماز جمعہ سے قبل نکلنے کے بجائے جمعہ کی نماز اداکرنے کے بعد ہی سفر شروع کرنا چاہیے۔
لیکن  اگر جمعہ کا وقت داخل ہوجائے یعنی زوال کے بعد،تو اس صورت میں سفر کے لیے نکلنے کی اجازت نہیں، زوال کے بعد نماز سے قبل سفر کرنامنع ہے؛لہٰذا ایسی ترتیب بنائی جائے کہ جمعہ کی نماز کسی بھی مسجد میں ادا کرنا ممکن ہو۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي التجنيس: الرجل إذا أراد السفر يوم الجمعة لا بأس به إذا خرج من العمران قبل خروج وقت الظهر؛ لأنّ الوجوب بآخر الوقت وآخر الوقت هو مسافر فلم يجب عليه صلاة الجمعة، قال رضي الله عنه: وحكي عن شمس الأئمة الحلواني أنه كان يقول: لي في هذه المسألة إشكال، وهو أن اعتبار آخر الوقت إنما يكون فيما ينفرد بأدائه، وهو سائر الصلوات، فأما الجمعة لاينفرد هو بأدائها، وإنما يؤديها الإمام والناس فينبغي أن يعتبر وقت أدائهم حتى إذا كان لايخرج من المصر قبل أداء الناس ينبغي أن يلزمه شهود الجمعة".

(كتاب الصلاة،باب صلاة الجمعة، 164/2، ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"(لا بأس بالسفر يومها إذا خرج من عمران المصر قبل خروج وقت الظهر) كذا في الخانية، لكن عبارة الظهيرية وغيرها بلفظ ( دخول ) بدل ( خروج ) وقال في شرح المنية: و الصحيح أنه يكره السفر بعد الزوال قبل أن يصليها، ولايكره قبل الزوال."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،162/2، ط:سعيد)

المحیط البرہانی میں ہے:

"نوع آخر في الرجل يريد السفر يوم الجمعة: وإنه على وجهين:

إن كان الخروج قبل الزوال فلا بأس به بلا خلاف؛ لأن الجمعة لاتجب قبل الزوال فلايصير بالخروج تاركاً فرضاً، وصار الخروج قبل الزوال، وليس فيه ترك فرض، نظير الخروج يوم الخميس، وإن كان الخروج بعد الزوال، فإن كان يمكنه أن يخرج من مصره قبل خروج وقت الظهر، فإنه لا بأس به بالخروج قبل إقامة الجمعة، وإن كان لايمكنه أن يخرج من مصره قبل خروج وقت الجمعة، فلاينبغي له أن يخرج، بل يشهد الجمعة ثم يخرج.وهذه المسألة لاتوجد بهذا التفصيل إلا في «السير»: وهذا بناءً إلى أصل معروف لنا أن وجوب الصلاة وسقوطها يتعلق بآخر الوقت، فمتى كان لايخرج وقت الظهر قبل خروجه من المصر، فهو صار مسافراً في آخر الوقت ولا جمعة على المسافر، ولايصير تارك فرض وإذا كان يخرج وقت الظهر قبل خروجه من مصره كان مقيماً في آخر الوقت، وهو في المصر وكان عليه إقامة الجمعة، فيصير بالخروج تاركاً فرضاً، فلايباح له الخروج."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الخامس والعشرون في صلاة الجمعة، 89/2، ط: دارالكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102852

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں