بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

کام نہ کرنے والے سے پیسے لینا یا اس سے زیادہ اجرت لینے کا حکم


سوال

دو لوگوں کا پاٹنرشپ چل رہا ہے، شروع میں صرف ایک بندہ کام کے لیےآتا ہے اور دوسرا نہیں آتا، تو کیا کام کرنے والا آدمی دوسرےیعنی نہ کام کرنےوالے سے پیسے لے سکتا ہے؟ اور اگر کام نہ کرنے والا شخص اپنی طرف سے کوئی چھوٹا بچہ کام کے لیے مقرر کردے ،لیکن وہ کام اتنا نہیں کرسکتا جتنا دوسرا پاٹنر کر رہا ہے، تو کیا اس بچہ سے زیادہ کام کرنے کے عوض دوسرا پاٹنر پیسے دے سکتا ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ دویازائد افراد کسی کاروبار میں شریک ہوں اور ہرایک کے لیے  نفع کاتناسب طے کرلیاجائے تواب کوئی ایک فریق اپنے لیے الگ اضافی رقم یاتنخواہ کامطالبہ نہیں کرسکتا ۔

صورتِ مسئولہ میں اگر پاٹنرشپ میں  ایک شریک  ایسا ہو جو  کام پر نہیں آتا یا اپنی جگہ کسی ایسے  بچہ کو مقرر کرتا ہو جو کام کی صلاحیت نہیں رکھتا یا کام کم کرتا ہو ، توکام کرنے والے شریک کا اپنے شریک سے نہ تو کام کے عنوان سے پیسے لینا جائز  ہےاور نہ ہی اپنے زائد وقت  کے عوض زیادہ اجرت لینےکی گنجائش  ہے،نفع کا تناسب دونوں کے درمیان شراکت کے معاہدہ کے مطابق تقسیم کیا جائے گا، البتہ کام کرنے والے کا نفع اپنے اس سرمایہ کے تناسب سے زیادہ مقرر کیا جائے مثلاً  سرمایہ دونوں کا پچاس پچاس فیصد ہے، نفع کی تقسیم میں محنت کار کا نفع ساٹھ فیصد اور محنت نہ کرنے والےیا کچھ محنت کرنے والے کا نفع چالیس فیصد رکھا جائے، تو شرعاً جائز ہے۔

مبسوط سرخسي میں ہے:

"والشريكان في العمل إذا غاب أحدهما، أو مرض، أو لم يعمل، وعمل الآخر: فالربح بينهما على ما اشترطا)؛ لما روي «أن رجلا جاء إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: أنا أعمل في السوق، ولي شريك يصلي في المسجد، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: لعلك بركتك منه». والمعنى أن استحقاق الأجر بتقبل العمل - دون مباشرته - والتقبل كان منهما، وإن باشر العمل أحدهما. ألا ترى أن المضارب إذا استعان برب المال في بعض العمل كان الربح بينهما على الشرط. أولا ترى أن الشريكين في العمل يستويان في الربح، وهما لا يستطيعان أن يعملا على وجه يكونان فيه سواء، وربما يشترط لأحدهما زيادة ربح لحذاقته، وإن كان الآخر أكثر عملا منه، فكذلك يكون الربح بينهما على الشرط ما بقي العقد بينهما، وإن كان المباشر للعمل أحدهما، ويستوي إن امتنع الآخر من العمل بعذر، أو بغير عذر؛ لأن العقد لا يرتفع بمجرد امتناعه من العمل، واستحقاق الربح بالشرط في العقد."

(كتاب الشركة،ج:11،ص:157،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والربح إلخ) حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في ‌قفيز ‌الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله (قوله فالشركة فاسدة) ؛ لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجانا."

(كتاب الشركة،ج:4،ج:326،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144312100769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں