بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کئی افراد کے فوت ہو جانے کی صورت میں بھی میراث تقسیم نہ کرنا


سوال

مسائلِ میراث کی ایک صورت ہے جس کو مناسخہ کہا جاتا ہے، جس کی مختصر تعریف یوں ہے کہ ایک شخص فوت ہو جائے اس کی میراث تقسیم کرنے سے پہلے دوسرا وارث فوت ہو جائے، پھر اسی طرح تقسیمِ میراث سے پہلے اس ثانی مردہ کا کوئی وارث فوت ہو جائے، اب اتنے سارے مر چکے ہیں، جن کی میراث کی تقسیم بالکل محال ہونے کے برابر ہے، کیوں کہ پورے خاندان میں میراث کی تقسیم بالکل ناپید چلی آ رہی ہے، اب ایک آدمی فوت ہو جائے اور کوئی یہ ارادہ کرے کہ صرف اسی میت کے ورثاء کو اس کی میراث میں حصہ دے دیں، پچھلے مردوں کا کوئی حساب سامنے نہ لائے، اس لیے کہ وہ خلط ملط ہو گیا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ صرف اسی میت کا مال تقسیم کیا جائے؟

جواب

مناسخہ کی صورت میں تقسیم میراث کی ترتیب بنانا کچھ دشوار ضرور ہے، لیکن ناممکن اور محال نہیں، جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے فوت ہونے والے صاحب کا نام لکھا جائے اور اس کے سامنے ان کے انتقال کے وقت موجود ورثاء کا نام لکھا جائے، پھر دوسرے نمبر پر فوت ہونے والے صاحب کا نام لکھا جائے اس کے سامنے ان کے انتقال کے وقت فوت ہونے والے ورثاء کا نام لکھا جائے، اس طرح ترتیب وار تمام مرحومین اور ان کے ورثاء کو یکجا کر لیا جائے اور دار الافتاء میں سوال جمع کروا دیا جائے، اس طرح نہایت سہولت سے ہر ایک وارث کا حصہ معلوم ہو جائے گا۔

اور یہ ترتیب بنانا نہایت ضروری ہے، ورثاء کو ان کے حصوں سے محروم کرنا بڑا گناہ ہے اور جو شخص اس میں رکاوٹ بنتا ہے ایسے شخص کے لیے حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہوئی ہے، اگر خاندان والوں کی ا س طرف توجہ نہ ہو تو ان کی توجہ اس طرف دلوائی جائے، خود اگر یہ کام دشوار معلوم ہوتا ہو تو کسی مستند عالم دین کے ذریعہ خاندان والوں کو اس مسئلہ کی آگاہی دلوائی جائے۔

باقی اگر  پرانے مرحومین کی  تقسیم میراث کی ترتیب نہ بنتی ہو اس کی وجہ سے بعد میں فوت ہونے والے مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کو مؤخر نہ کرنا چاہیے، بعد میں فوت ہونے والے ورثاء کے ترکہ کی تقسیم بروقت کر لینا ضروری ہے اور اگر وارثوں کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں ہیں، اور اس وقت جس آدمی کا انتقال ہوا ہے اس کے ترکہ میں جو کچھ ہے اگر اس کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ میت ان تمام چیزوں کا واقعی مالک تھا تو اس کے ترکہ کو صرف اس کے ورثاء میں تقسیم کرنا جائز ہو  گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين".

(كتاب البيوع ، باب الغصب والعاریة ، ج : 1 ، ص : 254 ، ط : قدیمی)

ترجمہ: "حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص(کسی کی) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

وفیہ ایضاً:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".

(كتاب الفرائض ، باب الوصایا ، الفصل الثالث ، ج : 1 ، ص : 266 ، ط : قدیمی)

ترجمہ :"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605101494

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں