بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کئی سالوں کا صدقہ فطر بیٹی کو دیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کسی باپ نے اپنی بیٹی کو مسلسل کئی سال لا علمی میں صدقہ فطر دیا ہو اور اب معلوم ہوجائے  کہ بیٹی کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں تو کیا یہ باب پچھلے سالوں کا بیٹی کو دیا ہوا صدقہ فطر دوبارہ ادا کرے گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جیسے زندگی کے ہر شعبہ میں دینی احکام پر چلنا لازم ہے، ایسے ہی دینی احکام سیکھنا بھی لازم ہے؛  لہذا جس عبادت یا معاملہ سے کسی کا واسطہ پڑتا ہے، اس کے ضروری مسائل سیکھنا اس پر فرض ہوجاتا ہے،  یہی محمل ہے اس حدیث کا جس میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سیکھناہر مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حلال یا حرام کا علم نہ ہونا، یا کسی مسئلہ کا علم نہ ہونا، یہ شرعاً "عذر" نہیں ہے۔

نیز واضح رہے کہ صدقہ فطر  اپنے اصول (والدین ،دادا/دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع(بیٹا/ بیٹی، پوتے /پوتی، نواسے/ نواسی وغیرہ) کو دینا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اپنی بیٹی کو لا علمی میں  صدقہ فطر دینے سے وہ ادا نہیں ہوا، اب گزشتہ سالوں کا صدقہ فطر موجودہ قیمت کے اعتبار سے مستحق تک پہنچانا ضروری ہو گا۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي".

(كتاب الزكوة ، الباب السابع ،ج:1، ص: 188، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلايتحقق التمليك على الكمال هداية والولاد بالكسر مصدر ولدت المرأة ولادةً وولادًا مغرب أي أصله وإن علا كأبويه وأجداده وجداته من قبلهما وفرعه وإن سفل بفتح الفاء من باب طلب والضم خطأ؛ لأنه من السفالة وهي الخساسة مغرب كأولاد الأولاد".

(كتاب الزكوة، ج:2، ص: 346، ط: سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح، ويقوم في البلد الذي المال فيه ولو في مفازة ففي أقرب الأمصار إليه، فتح".

(كتاب الزكوة، ج:2، ص: 285، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے: 

"وإن أخروها عن يوم الفطر لم تسقط، وكان عليهم إخراجها، كذا في الهداية". 

(كتاب الزكوة ، الباب الثامن ، 1/ 192 ، طبع : دار الفكر)

البحر الرائق میں ہے:

"فإن الجهل ‌بالأحكام ‌في ‌دار ‌الإسلام ليس بمعتبر."

(كتاب الصوم ، جلد : 2 ، صفحه : 282 ، طبع : دار الکتاب الاسلامی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144609100168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں