بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کفارہ میں دو وقت کھانا کھلانے کا ثبوت قرآن سے ہے


سوال

کفارات میں دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے کا ثبوت کدھر سے ہے؟ تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

کفارہ یمین  کےعلاوہ دیگرکفارات میں دووقت کا کھاناکھلانےکاحکم فقہائےکرام نےکفارہ یمین سےأخذکیاہے،جب کہ کفارہ یمین میں دووقت کاکھاناکھلانےکی دلیل اوراس کاثبوت قرآن کریم سےہے ،اللہ تعالی قسم کےکفارےکےمتعلق سورۂ مائدہ میں فرماتےہیں :

"فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ."﴿المائدة: ٨٩﴾

ترجمہ:  "قسم کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے، اس کا درمیانہ جو تم اپنے گھر والوں کو کھلایا کرتے ہو۔"

 عام طورپراوسط اوردرمیانہ کھاناآدمی اپنےگھروالوں کو دو وقت کھلاتاہے،خصوصاًنزول قرآن کےزمانےمیں  اہل عرب  میں عموماً دو وقت "غدا"اور"عشاء" کاکھاناہوتاتھا،نیزآج تک دنیا کےاکثرممالک میں  کھانادووقت کھایاجاتاہے، مزیدیہ کہ روزہ داربھی دووقت سحروافطار کا کھاناکھاتاہے، جب كہ آخرت میں اہل جنت کاکھانابھی دووقت کاہوگا، اللہ تعالی فرماتےہیں :{وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا} [مريم: ٦٢]؛ فقہائےکرام نےکفارات میں دووقت کھانا کھلانےکاحکم مذکورہ آیت میں "من أوسط ماتطعمون أہلیکم"   سےأخذ کیاہے۔

تفسیرمظہری میں ہے:

"إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ والإطعام جعل الغير طاعما سواء كان بالتمليك أو الإباحة ومن ثم قال أبو حنيفة: لو غدّاهم وعشّاهم أكلتين مشبعتين من غير تمليك جاز قليلا أكلوا أو كثيرا كذا ذكر الكرخي بإسناده إلى الحسن."

(سورة المائدة آيت89،ج:3،ص:162،ط:رشیدیة)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) المقدار في طعام الإباحة فأكلتان مشبعتان غداء وعشاء، وهذا قول عامة العلماء ...لأن الله عز وجل عرف هذا الإطعام بإطعام الأهل بقوله تعالى: {من أوسط ما تطعمون أهليكم} [المائدة: 89] ، وذلك أكلتان مشبعتان غداء وعشاء كذا هذا، ولأن الله - جل شأنه - ذكر الأوسط. والأوسط ما له حاشيتان متساويتان، وأقل عدد له حاشيتان متساويتان ثلاثة، وذلك يحتمل أنواعا ثلاثة: أحدها الوسط في صفات المأكول من الجودة والرداءة.والثاني الوسط من حيث المقدار من السرف والقتر.والثالث الوسط من حيث أحوال الأكل من مرة ومرتين وثلاث مرات في يوم واحد، ولم يثبت بدليل عقلي ولا بسمعي تعيين بعض هذه الأنواع فيحمل على الوسط من الكل احتياطا ليخرج عن عهدة الفرض بيقين وهو أكلتان في يوم بين الجيد والرديء، والسرف والقتر، ولأن أقل الأكل في يوم مرة واحدة وهو المسمى بالوجبة، وهو في وقت الزوال إلى زوال يوم الثاني منه.والأكثر ثلاث مرات غداء وعشاء وفي نصف اليوم، والوسط مرتان غداء وعشاء وهو الأكل المعتاد في الدنيا وفي الآخرة أيضا، قال الله سبحانه وتعالى في أهل الجنة {ولهم رزقهم فيها بكرة وعشيا} [مريم: 62] ، فيحمل مطلق الإطعام على المتعارف."

(کتاب الکفارات،فصل في شرط جواز كل نوع،ج:5،ص:ب301،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144511100986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں