میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ،وہ کینسر،شوگر اور بلڈپیشر کی مریضہ تھی ،انہوں نے انتقال سے پندرہ دن پہلے جبکہ وہ اس وقت صحیح سالم تھیں کہاکہ میں اپنا سونا(نو تولہ سونا تھا مختلف قسم کے زیورات کی شکل میں ) اپنی تین بیٹیوں کو دیتی ہوں ،وہ زیور میرے پاس ہی رکھواتی تھیں ،ہم 3 بہنیں اور 2 بھائی ہیں ،اس بات کے گواہ والد صاحب ، بڑے بھائی اور بھابھی ہیں ،مجھے والدہ نے کہا کہ تم تینوں بہنیں لے لینا ،میں نے اپنی دونوں بہنوں کی وکالت سے اس پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ میں ان کو دیدوں گی،اور میری والدہ نےدونوں کو فون پر بھی بتا دیا تھا،اور بہنوں نے پھر مجھ سے اس بات کی تصحیح بھی کی ہے ،نیز میری دو بہنیں بھی اپنا زیور میرے پاس ہی رکھواتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ اس کو اپنے پاس ہی رکھیں ،ہم نے سونے کو تقسیم نہیں کیا تھا کہ والدہ صاحبہ کا انتقال ہو گیا ہے ،ان کی شوگر اور بلڈپریشر ہائی ہوگئی تھی ،ان کو ہسپتال میں داخل کیا ،تین دن بعد ان کا انتقال ہو گیا ،چھوٹا بھائی کہتا ہے کہ آپ نے سونا تقسیم نہیں کیا ہے اس لیے وہ شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگا ،بڑے بھائی نے تو کہا تھا کہ تم لوگ لے لو امی نے کہا تھا ،لیکن اب وہ بھی چھوٹے بھائی کی باتوں میں آرہا ہے اور انکار کر رہا ہے ،نیز وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ مرض الوفات میں دیا ہے ،ہم بہنیں کہہ رہی ہیں کہ اس وقت تو والدہ صحیح تھیں ۔سوال یہ ہے کہ :
1)اس سونے میں بھائیوں کا حصہ ہے یا نہیں ؟
2)یہ سونا وراثت میں داخل ہے یا بہنوں کا ہے ؟
3)مرض الموت کی تعریف بھی بتادیں ؟
4)کیا امی کے لیے اپنی بیٹیوں کو ہدیہ دینے کے لیے بیٹوں سے اجازت لینا ضروری تھا۔
1،2)واضح رہے کہ جو چیز قابل تقسیم ہو اور وہ متعدد افراد کو ہبہ(گفٹ)کی جارہی ہو تو اس چیز کا ہبہ مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیز تقسیم کر کے دی جائے ۔
صورت مسئولہ میں والدہ نے اپنی بیٹی کو یہ کہا تھا کہ "یہ سونا میں اپنی تینوں بیٹیوں کو دیتی ہوں "تو چونکہ بیٹی نے اس سونے کو ان کی زندگی میں تقسیم ہی نہیں کیا تھا حالانکہ وہ قابل تقسیم تھا اس لیے یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا لہذا یہ سونا والدہ مرحومہ کے ترکہ میں شمار ہو کر ان کے ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا ۔
3)جس مرض میں موت کا غالب گمان ہو اس مرض کو مرض الموت کہتے ہیں ۔
4)والدہ چونکہ اپنے سونے کی مالک تھیں اس لیے بیٹیوں کو سونا ہدیہ کرنے کے لیے بیٹوں سے اجازت لینا ان کے لیے ضروری نہیں تھا۔لیکن اس ہدیہ کے لئے یہ ضروری تھا کہ ہرایک کواس کاحصہ الگ الگ کرکے اس کے قبضہ میں مالکانہ اختیارات کے ساتھ دے دیا جاتا۔
4)مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگرمرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصے سے ادا کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 28 حصوں میں تقسیم کر کے 7 حصے شوہر کو ،6 حصے کر کے ہر بیٹے کو اور 3 حصے کر کے ہر بیٹی کو 3 حصے ملیں گے ۔
صورت تقسیم یہ ہے :
میت28/4
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | ||||
7 | 6 | 6 | 3 | 3 | 3 |
یعنی 100 فیصد میں سے شوہر کو 25 فیصد،ہر بیٹے کو 428.21 فیصد اور ہر بیٹی کو 714.10 فیصد ملے گا ۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة
(کتاب الہبۃ،ج:4،ص:374،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
المريض مرض الموت من لا يخرج إلى حوائج نفسه وهو الأصح كذا في خزانة المفتين حد مرض الموت تكلموا فيه والمختار للفتوى أنه إذا كان الغالب منه الموت كان مرض الموت سواء كان صاحب فراش أم لم يكن كذا في المضمرات
(کتاب الإقرار،باب فی اقاریر المریض ،ج:4ص:176،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن